احساس کے رشتے

*کچھ باتیں تھیں پھولوں جیسی
کچھ لہجے خوشبو جیسے تھے*

جب بھی ہمارا گزر اپنے پرانے محلے سے ہوتا ہے جہاں ہم نے آنکھ کھولی جہاں ہمارا بچپن گزرا ، تو دفعتا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی ٹا ئم مشین میں قدم رکھ رہے ہیں ۔ماضی کی یادیں سرد لہروں کی طرح سارے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔یادوں کے تیز جھکڑ چلنا شروع ہوجاتے ہیں دل و دماغ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ٹائم ٹریول شروع ہوچکا ہے۔زمان ومکاں کی بندیشیں ختم ہوتی نظر آتی ہیں ۔
اپنے پرانے محلے کی پرانی جامع مسجد میں داخل ہوتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے زمانہ ماضی اور زمانہ حال باہم مدغم ہونے لگے ہیں۔

جذبات سے معمور دل اور اپنے اٹھتے ہوئے بھاری قدموں کی دھمک کے ساتھ ساتھ ننھے "منو" کے ننھے ننھے قدموں کی چاپ صاف سنای دیتی ہے۔ وہی منو میاں کہ جسکو مدرسے جانے سے قبل اس کی پیاری پیاری امی دودھ میں بادام پیس کر پلاتی تھیں کہ منو کا دماغ اور حافظہ تیز ہوجائے ۔قدم جوں جوں مسجد کے دالان میں بنی حوض کی طرف اٹھتے ہیں ۔ حوض کے ٹھنڈے یخ پانی سے وضو کرتے ہوئے دماغ میں ریڈیائی لہروں کی رفتار تیز ہونے لگتی ہے بالکل اسی طرح محسوس ہوتا جیسے ریڈیو کی ٹیوننگ کرتے ہوے جب دو مختلف اسٹیشنوں کے سگنل باہم ملنے لگتے ہیں تو بے ہنگم سا شور سنائی دیتا ہے ،
ماضی اور حال کے سگنلز باہم ٹکرانے لگے ہیں،
حوض کے پانی سے وضو کرنے میں جو سرور ہے وہ جدید نلکوں کے پانی میں کہاں ۔
بڑے بھائیوں کے ساتھ بتایا ہوا بچپن یاد آنے لگا ہے ۔ بھائی جان کو وضو کرتے بڑے انہماک سے دیکھا کرتے تھے۔
بھائیوں کی محبت بھی عجیب ہے کہ جن کو بچپن میں جان کہتے ہوے ہماری جان جاتی تھی وہ آج جان سے بھی عزیز ہیں۔
نماز کے دوران ایک ایک انمول رشتہ یاد آنے لگتا ہے۔آنسوؤں کی لڑیاں رخسار پر بہنا شروع ہوجاتی ہیں۔چینل کی ٹیوننگ اب مکمل طور پر ہوچکی ہے ۔ ماضی کی دھندلی تصویریں اب واضح اور نمایاں ہونے لگی ہیں اور دماغ کی پردہ اسکرین پر ایک فلم کی طرح رواں دواں ہیں ۔
گزرا ہوا کل کانوں میں سرگوشیاں کرتا سنائی دیتا ہے ماں کی یاد شدت سے آتی ہے۔ ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں ۔وقت جیسے تھم سا جاتا ہے۔یہ ہی وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جس میں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ بے شک بزرگوں کے وجود مادی طور پر فنا ہوچکے ہیں مگر روحانی طور پر بقا ئے دوام پاچکے ہیں ۔
اگر فریکوئینسی مل جائے
اگر رابطہ قائم ہوجائے
اگر جذبوں میں صداقت ہو
اور نیت میں اخلاص ہو تو روحانی ملاقات بھی ممکن ہے۔اس کے بعد جو کیفیت قلب حزیں ہوتی ہے وہ بیان کرنا محال ہے۔
بقول شاعر
آنسو خشک ہوجاتے ہیں مگر طغیانی نہیں جاتی ۔
جیسے جیسے آنسو پونچھنے شروع کرتے ہیں زمانہ ماضی سے زمانہ حال میں واپسی کا سفر بھی شروع ہوجاتا ہے ۔
وہ حال کے جس کے نہاں خانوں سے مستتقبل کے روشن دریچے گھر پر ہماری راہ تک رہے ہوتے ہیں ۔

مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روزروشن کا شمار کرتا ہوں دانا دانا
۔
رائے سے آگاہ کریں
 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50267 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.