پہلا قطرہ

تحریر: انصرمحمودبابر
اس کی چائے بہت اچھی تھی۔ عین میرے ذوق کے مطابق۔ چسکی لیتے ہی بے ساختہ اثبات میں سر ہل گیا۔ میری یہ خفیف حرکت بھی اس سے پوشیدہ نہ رہی اورہلکی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پہ رینگ گئی۔ وہ چائے کے برتن لینے آیاتومیں نے پیسے نکال کردیے اورچائے کی تعریف کی تو اس کی روشن آنکھیں مزیدچمک اٹھیں۔ ایک غیرمعروف جگہ کے ایک سادہ سے اسٹال پہ اتنی عمدہ چائے اورچائے والے کا انداز دیکھ کر میرا تجسس جاگا اور میں نے اس سے بات چیت شروع کردی۔

نام وغیرہ پوچھنے کے بعد خواہ مخواہ ہی اس کی تعلیم پوچھ لی جواس نے گریجوایشن بتائی۔ ’’برخوردارتم نے کوئی جاب کیوں نہیں کرلی‘‘؟ میں نے پوچھا۔ ’’اس کا م میں کیابرائی ہے صاحب‘‘؟، الٹااس نے مجھ سے سوال کرڈالا۔ ’’میرا مطلب ہے کوئی باعزت روزگارکرلیاہوتا‘‘۔ میں نے خفت مٹانے کی کوشش کی۔ کام توسارے ہی عزت والے ہیں صاحب۔ بس اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ آپ کیاکرتے ہیں صاحب؟ اس نے مجھ سے مزیدپوچھا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں لکھتاہوں۔ تووہ بولا،’’اچھااچھا لکھاکریں صاحب آپ کی تحریریں پڑھ کرلوگ اثرلیتے ہوں گے‘‘۔ اس کاہرہر اندازمیری صحافیانہ حس کومزیدہوادے رہاتھا۔

اگرچائے کا اسٹال ہی لگانا تھا تو گریجوایشن کرنے کی کیاضرورت تھی؟ میں نے اس کومزید بات کرنے پراکسایا۔ کوئی ٹائی کوٹ والی جاب کرتے یاکسی دفتر میں بابولگ جاتے تومحلے میں عزت ہوتی۔ وہ مسکرایااورکہنے لگا، ’’سرکسی کے مرہون ِ منت ہونے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنا چائے کا اسٹال کھول لے۔ یہاں سے میراپیٹ بھی پل رہا ہے اورایساکرنے سے ملک سے ایک بے روزگارکی کمی بھی ہوئی ہے اورجہاں تک بات ہے گریجوایشن کی تویقیناآپ کوایک گریجوایٹ کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے کالطف بھی آیاہوگااورچائے پیش کرنے کاطریقہ کار اور اسٹال اور برتنوں کی صفائی اورترتیب نے بھی آپ کو متاثرکیاہوگا‘‘؟ ’’بہت خوب‘‘، میں نے اسے داددی۔ ساتھ ہی مزیدسوال بھی داغ دیا۔ ’’تمہارے کلاس فیلوز بھی آتے ہیں ادھر‘‘؟۔ ’’کیوں نہیں صاحب۔بالکل آتے ہیں میرے ہاتھ کی بنی چائے پیتے ہیں، محظوظ ہوتے ہیں۔ان میں سے کچھ توآپ کے بقول بڑی عزت والی جاب کرتے ہیں جبکہ کچھ کا اپناکاروبار ہے اوریقین کریں صاحب! ہم مل کر انجوائے کرتے ہیں۔ ہنستے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مارکر بڑی دیر تک ایک دوسرے کے ہونے کے احساس سے سرشار رہتے ہیں‘‘۔

اچھایہ بتاؤ کہ چائے کے اسٹال میں اپنامستقبل کیسادیکھتے ہو؟۔ وہ سانس لینے کورکا تو میں نے پوچھا، ’’صاحب پہلی بات تو یہ ہے کہ فی الحال تومیں پیٹ بھر کے کھانا کھاتا ہوں اور رات کوجی بھرکے سوتاہوں اور شاید یہ نعمتیں تمام ملازمت کرنے والوں کو میسر نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ملکی معیشت میں پہلا قطرہ بن کرمیں ٹپک تو پڑا ہوں نا؟۔ آہستہ آہستہ ہی سہی میں لگاہواہوں اور میرا ماننا ہے صاحب کہ خوشحالی صرف اپنے کاروبار میں ہے۔ ان شاء اﷲ بہت جلدمیں چائے کے اسٹال کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا ریسٹورینٹ کھولنے والاہوں۔ میں اپنے ملک اور مستقبل سے مایوس اور خوف زدہ نہیں ہوں صاحب‘‘۔ توکیاتم ہرآنے والے کو اسی طرح اپنی ڈگری بتابتاکر رعب ڈالتے ہو؟۔ نہیں سروہ تو آپ نے پوچھا اور میں نے بتادیا ورنہ علم تو وہ ہے جو آپ کے رویے اور کردار سے جھلکتا ہے ورنہ ڈگری تومحض آپ کے تعلیمی اخراجات کی ایک رسید ہے۔

حیرت کے سمندر میں غوطہ زن بے ساختہ ہی میں اٹھ کھڑا ہوا اس کاکاندھا تھپتھپایا، اس کی حوصلہ افزائی کی اورگاڑی میں بیٹھ کر نکل پڑا۔ آج بھی وہ اسمارٹ سانوجوان اور اس کافلسفہ زندگی میری سوچ پہ چھایا ہوا ہے اورمیں مسلسل یہ سوچ رہاہوں کہ اگر میرے ملک کا سارا نوجوان طبقہ اس سوچ کو اپنالے اور ڈگریوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے والدین اورجوان بہن بھائیوں کی خواہشات اور ارمانوں کا بوجھ اپنے ناتواں اور ناتجربہ کار کندھوں پہ اٹھائے نوکری کی تلاش میں دفتروں کے جنگل میں دربدربھٹکنے کی بجائے اگرچھوٹا موٹا ہی سہی اپناکام کرنے کو ترجیح دینے لگیں تو وہ وقت دور نہیں جب میرے ملک ِ پاکستان سے بیروزگاری کی شرح بڑی حد تک کم ہوجائے گی اور ملکی معیشت کو بھی سہارا مل جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ ارباب ِ ذی شعور و ذی اختیار بھی اگر نوجوان نسل کے لیے کوئی ایسا منصوبہ ،کوئی ایسی پالیسی اورکوئی ایسی رہنما ترکیب اختیار کریں کہ جس سے انفرادی سطح پر چھوٹے کاروبار کرنے کی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ انھیں آسان شرائط اور بغیر سود کے قرضہ جات دیے جائیں۔کوئی ایسی وزارت ہو جو نوجوان نسل کے ٹیلنٹ کو استعمال میں لائے اور قوم کے ان معماروں کو مستقبل کے خوف اور مایوسی سے نجات دلائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے بڑے کاروباری حضرات ذاتی طور پر بھی یہ طریقہ کار اختیارکرسکتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے کاروبارمثلاً بیکری، فروٹ شاپ، چکن شاپ، ریسٹورینٹ، لکڑی کے اسٹال، گارمنٹس کاکام، ریڈ ی میڈ کپڑے کاکام، ہینڈی کرافٹ، چھوٹے گھریلو جوتے بنانے کے صنعتی یونٹ وغیرہ میں نوجوان نسل کی رہنمائی اور مدد کریں۔ یقین مانیں معاشی ترقی ہم سے زیادہ دورنہیں بس آپ کی تھوڑی سی دلچسپی اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے-

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025655 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.