سرور کائنات ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کی
امید بھی ہو اور اس کے عذاب کا ڈر بھی ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا
ہے کہ بندہ نہ تو خدا کی رحمت سے بالکل مایوس ہو جائے اور نہ ہی اس کے عذاب
سے اتنا ڈرے کہ اس کی رحمت کی امید ہی باقی نہ رہے بلکہ بین بین حالت ہو۔
قرآن پاک میں جہاں جہاں بندوں کو عذات الیم کی وعید سنائی گئی ہے وہاں اس
کی بے پایاں رحمت و مغفرت کا وعدہ بھی دیا گیا ہے چانچہ ارشاد باری تعالیٰ
ہے (ترجمہ) بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے مگر وہ بخشنے والا مہربان بھی
ہے اور فرمایا میری رحمت سے مایوس نہیں ہوتے مگر کافر لوگ‘‘ (القرآن)
یہ اس لئے ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے خطا کاری اس کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ
فرشتوں کی طرح معصوم نہیں کہ غلط کاری کا تصور بھی محال ہو بلکہ اس کے ساتھ
تو دو ازلی دشمن نفس امارہ و شیطان ہیں جن کی ہر لمحہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ
انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا کر قعر مذلت میں گرا دیا جائے اور ایسا کرنا
ان کے لئے نہایت آسان ہے ۔ مگر ایسے میں خدا کی رحمت اس کے آڑے آتی ہے اور
انسان کو کفر و ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف واپس لاتی
ہے چانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ اللہ تعالیٰ دوست ہے ایمان والوں
کو جو انہیں گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لاتا ہے اور
وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور ان کے دوست شیطان ہیں جو انہیں ہدایت کے نور
سے نکال کر کفر وضلالت کے اندھیروں میں دھکیلتے ہیں ‘‘ (القرآن)
شیطان ابلیس جو انسان کا ازلی دشمن ہے اسے جس روز حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ
کرنے کی پاداش میں جنت سے نکال دیا گیا تھا تو اس نے اللہ کے حضور یہ قسم
کھائی تھی کہ ’’ میں انسان کو ہر ممکن طریقہ سے گمراہ کرنے کی کوشش کروں
گا‘‘ تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جو میرے بندے ہیں ان پر
تیرا کوئی زور نہیں چلے گا اسی لئے متعدد آیا ت و احادیث میں خداوند قدوس
کی رحمت واسعہ کا بیان ہے کہ کہیں انسان نفس و شیطان کے چکروں میں پڑ کر دل
برداشتہ نہ ہوجائے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ بیٹھے چنانچہ فرمان
الہی ہے (ترجمہ) ’’ خدا کی رحمت قریب ہے احسان کرنے والوں کے ساتھ‘‘ اور
فرمایا (اے نبی اکرم ﷺ) جب آپ ؐ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (کہ
میں کہاں ہوں؟) تو آپ ؐ فرما دیجئے کہ میں تو ان کے قریب ہوں جواب دیتا ہوں
پکارنے والے کی پکارکا جب بھی مجھے پکارے پس انہیں بھی چاہئے کہ میری بات
کو سنیں، مجھ پر ایمان لائیں تاکہ فلاح پائیں ‘‘(القرآن)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے کئے۔ نناوے حصے
اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ پوری دنیا پر تقسیم کر دیا۔ اس ایک حصہ کے سبب
ماں اپنے بچہ سے پیار کرتی ہے اور گھوڑا اپنے پاؤں کو اٹھا تا ہے مبادا
نیچے آکر اسکا بچہ کچلا نہ جائے۔ (بخاری شریف) اور فرمایا اللہ نے لوح
محفوظ پر لکھ دیا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر بھاری رہے گی اور حدیث قدسی
ہے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہ اگر ابن آدم مجھے اس حال میں ملے کہ
اس کے گناہ زمین آسمان کے درمیانی فاصلہ کو پورا کرتے ہوں تو اگر اس نے
میرے ساتھ شرک نہیں کیا تو میں اس کے تمام گناہوں کو معاف کردوں گا(بخاری و
مسلم) خدا تعالیٰ جلال و جمال، لطف و عطا اور جودوکرم کا ایک لامحدود و
لامتناہی خزانہ ہے اور اس کی رحمت ناپیدا کنار ہے اور وہ اپنے ماننے والوں
کی حاجات کو پورا کرتا اور انہیں مغفرت و رضوان سے نوازتا بھی ہے بشرطیکہ
کوئی اسے صدق دل سے پکارے اور اس پر ایمان لائے۔
بعض لوگ ذات باری تعالیٰ کے بارے میں اس قسم کا گمان بھی رکھتے ہیں کہ نعوذ
باللہ وہ ایک ظالم و جابر حکمران اور جذبات و احساسات سے عاری ایک اندھی
قوت ہے جسے اپنی مخلوقات سے کوئی پیار نہیں اور یہ کہ اس نے انسانوں کو
جلانے کیلئے آگ کا ایک خوفناک گڑھا(دوزخ) تیار کیا ہوا ہے جسے وہ روز قیامت
انسانوں سے بھر دے گا وغیرہ وغیرہ مگر ان کوتاہ نظر لوگوں کو شاید یہ بات
معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ جلال و جمال لطف و عطا اور جودو کرم ایک لامحدود
لامتناہی خزانہ بھی ہے اور اس کی رحمت ناپید کنار ہے وہ اپنے ماننے والوں
کی حاجات کو پورا کرتا ہے اور انہیں مغفرت و رضوان سے نوازتا بھی ہے
بشرطیکہ کوئی اسے صدق دل سے سے پکارے او راس پر ایمان لائے ظالم و جابر تو
وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کی واضح آیات کو دیکھ کر بھی اس سے منہ موڑ
لیتے ہیں اور تمردو سرکشی کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتے ہی چلے جاتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے اس سے
ملتی جلتی ایک حدیث ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ایمان کے تین درجے ہیں پہلا
درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برائی کو ہوتا ہوا دیکھے تو اسے ہاتھ سے
روک دے اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو کم
از کم اس برائی کو دل میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے
(متفق علیہ) اس کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ اگریہ آدمی برائی کو برائی سمجھے
گا تو ایک نہ ایک دن اسے ضرور توبہ کی توفیق ہو جائے اور اگر اس کام کو
برائی نہیں سمجھے تو پھر تو بہ کی توفیق محال ہے۔ جیسا کہ اکثر آج کل یہ
دکھا جاتا ہے کہ کسی ناجائز کام کو رسم و رواج یا زمانے کا دستور یا نظریہ
ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا جاتا ہے اور اس کے نتائج کی پرواہ نہیں کی
جاتی۔ مثلاً رشوت کو ’’چائے پانی ‘‘ یا اللہ کا فضل قرار دیا جاتا ہے اس
طرح فلم ڈرامہ اور دیگر فحاشی کے کاموں کو ’’ثقافت ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے
اس طرح کے کام ہمارے معاشرے میں اکثر ہوتے ہیں مگر اس کے نقصان کی پرواہ
نہیں کی جاتی۔
سرور کائنات ﷺ سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا کہ گناہ کی نشانی کیا ہے؟ تو
آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو اس بات سے
ڈرے کہ لوگ میرے اس فعل پر مطلع ہو جائیں (المشکوۃ) |