اکبر: السلام علیکم
احمد : وعلیکم السلام
اکبر : یار احمد ! میں نے سنا ہے کہ تو اپنی 70 ایکڑ سونا اگلتی زرعی زمین
پر سوسائٹی بنانے لگا ہے ؟
احمد: ہاں یار اکبر کھیتی باڑی سے مسلسل نقصان ہو رہا ہے اس لیے یہی سوچا
ہے کہ سوسائٹی بنا لیتا ہوں۔
اکبر : لیکن یار اس دفعہ تمہاری تو آلو کی فصل کافی اچھی ہوئی تھی، مٹر اور
گنا کی فصلیں بھی اچھی ہوئی تھیں۔
اکبر : یار فصل تو میری ہر دفعہ اچھی ہوتی ہے مگر منڈی میں فصل کے دام ہی
نہیں ملتے۔ جو ملتے ہیں وہ فصل پر ہونے والے خرچہ سے بھی کم ہوتے ہیں ، گنے
کی فصل کے تو شوگر مل مالکان نے ابھی تک نہیں دیے لہذا منافع کی بجائے
نقصان ہوتا ہے۔
اکبر : پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا ، اب یہ زراعت ہر سال نقصان میں کیوں جا
رہی ہے ؟
احمد : اب مشینری کے ساتھ فصل کی پیداوار میں قدرے بہتری آئی ہے۔ مگر ہماری
حکومت جن اجناس کی پیداوار ملک میں کافی ہے وہ بھی انڈیا سے درآمد کر رہی
ہیں، مثلا آلو ، پیاز پاکستان برآمد بھی کر سکتا ہے مگر انڈیا سے درآمد
کرنے کی وجہ سے پاکستانی کسان کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی چاول ، گندم، کپاس ، آلو اور گنا جیسی فصلیں برآمد
کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اکبر: یار کسان لوگ حکومت سے اس بارے بات کیوں نہیں کرتے ؟
احمد: ابھی پچھلے دنوں کسانوں نے احتجاج بھی کیا ہے مگر اس کے خاطر خواہ
نتائج سامنے نہیں آئے ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے مگر
کسان مسلسل نقصان اٹھا رہا ہے۔
اکبر: یار یہ تو بڑی تشویشناک بات ہے پاکستان کی زیادہ تر آبادی زراعت پر
ہی انحصار کرتی ہے اگر توجہ نہ کی گئی تو زراعت تباہ ہو جائے گی۔
احمد: کوئی شک نہیں کافی سارے لوگ اپنی زمینوں پر سوسائٹی کو ترجیح دے رہے
ہیں، اس لیے میں نے بھی یہی ارادہ کیا ہے کہ سوسائٹی بنا کر سکون سے پیسا
کماؤں۔
اکبر : یار ہم اپنی زراعت کو کیسے بچا سکتے ہیں ؟
احمد : عالمی منڈی میں پاکستانی پھل و سبزی متعارف کروائی جائے۔
پاکستانی پیداوار کو دوسرے ملکوں کو برآمد کروانے میں مدد کرے اور جو فصلیں
پاکستان میں کافی ہیں وہ درآمد کرنا بند کرے۔
امدادی قیمتوں پر کسانوں سے فصل خریدیں۔
اور ملز مالکان کو پابند کریں کہ کسانوں کو فورا ادائیگیاں کریں ۔
تو زراعت کو بچایا جا سکتا ہے۔
اکبر : اچھا یار میں یہ باتیں حکومت تک پہنچانے میں مدد کروں گا ۔
احمد: بہت بہت شکریہ
عاصم مجید
|