کام سے پہلے سوچ، عمل سے پہلے فکر اور حرکت سے پہلے سمت
کا تعین ضروری ہے۔ استعمار پہلے سوچتا ہے، تھیوری دیتا ہے اور پھر واردِ
عمل ہوتا ہے۔خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لئے عربوں میں یہ تھیوری عام کی
گئی کہ عرب صرف عربوں کا ہے۔ جس کے بعد مسلمان قوم عرب اور عجم میں تقسیم
ہوگئ اور خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ہوگئے، اس طرح کی متعدد مثالیں تاریخ میں
موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑی مثال فلسطین کی بھی ہے۔
فلسطینیوں کو ان کے گھربار سے نکال کر یہ مشہور کیا گیا کہ فلسطین صرف
عربوں کا مسئلہ ہے لہذا باقی اسلامی دنیا اس سے الگ تھلگ رہے۔فلسطین کو
عربوں کا مسئلہ قرار دینے کے بعد عرب ممالک کو استعمار نے ہمیشہ کے لئے
اپنے نیچے لگا رکھا ہے۔
اب سامراج کی کوشش ہے کہ کشمیر کو بھی صرف ایک مقامی و علاقائی اور فقط
کشمیریوں کا مسئلہ قرار دے کر اس مسئلے کو دبایا جائے جبکہ یہ مسئلہ انسانی
حقوق، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کا مسئلہ ہے۔
پاکستانی عوام ۵ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے نام سے مناتے ہیں۔ لیکن
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روز کو کشمیریوں اور پاکستانیوں کے علاوہ ساری
دنیا یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے منائے۔ ہر مذہب،ہرملک، ہر ملت اور ہر
طبقہ فکر کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر کے سامراج کے منہ پر طمانچہ رسید
کرنا چاہیے۔
3 جون 1947ءکو سامراج نے برصغیر کی 562 ریاستوں کو دوقومی نظریے کی بنیاد
پر ہندوستان یا پاکستان میں ضم کرنے کے بجائے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی
مرضی سے اپنی قسمت کا فیصلہ کریں۔ اس وقت نہ صرف یہ کہ ریاست جموں و کشمیر
کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی بلکہ اسکی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ
سے ہو کر جاتی تھی اوراس کی دو ہی پختہ سڑکیں تھیں جو راولپنڈی اور سیالکوٹ
سے گزرتی تھیں، اسی طرح مواصلات کا نظام بھی پاکستان کا مرہون منت تھا ،
ساتھ ہی ساتھ اس کی چھ سو میل سرحد پاکستان کے ساتھ مشترک تھی لیکن عالمی
سامراج نے پاکستان و ہندوستان کو آپس میں مشغول رکھنے کے لئے اس ریاست کو
متنازعہ چھوڑ دیا۔
لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے اس منطقے میں جس فتنےکی بنیادرکھی وہ فتنہ دن بدن شعلہ
ور ہوتا جا رہا ہے اور اس مسئلے پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جتنی
بھی جنگیں اور جھڑپیں ہوتی ہیں یہ در اصل عالمی سامراج کے ایجنڈے کی ہی
تکمیل ہے۔ہندوستان اور پاکستان نے باہمی طور پر اس مسئلے کے حل کے لئے کئی
کوششیں کیں لیکن مکار انگریز کا بویا ہوا دشمنی کا بیج کسی طور بھی ختم
نہیں ہو سکا۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت چناب فارمولے کو ملی، چناب فارمولا در اصل
اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مایوسی کا رد عمل ہے۔ ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ
خود بھی مغرب و امریکہ کی لونڈی ہے لہذا اس سے اس مسئلے کے حل کے لئے کسی
طرح کی امید رکھنا فضول اور عبث ہے۔ جو بھی کرنا ہوگا وہ کشمیریوں،
پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو مل جل کر کرنا ہوگا۔
چناب فارمولا دراصل نہرو اور ایوب خان کے دور کی پیداوار ہے اور اسے عوام
میں شہرت پرویز مشرف کے دور میں ملی۔ اس فارمولے کے تحت دریائے چناب کو
مرکزی حد تسلیم کر کے کشمیر کو تقسیم کرنے کی بات کی گئی ہے۔مسٹر نہرو یعنی
ہندوستانی وزیراعظم کی ایما پر شیخ عبداللہ، صدر ایوب خان اور پاکستانی
وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئے، لیکن
مسٹر نہرو کی وفات کی وجہ سے یہ مذاکرات تعطل کے شکار ہوگئے اور کوئی
پیشرفت نہیں ہو سکی، بعدازاں کسی حد تک میاں نواز شریف کے دور میں اور
خصوصاًٍ پرویز مشرف کے دور میں اس فارمولے کو دوبارہ زیر بحث لایا گیا لیکن
پرویز حکومت کے خاتمے کےساتھ ہی یہ سلسلہ پھر ایک مرتبہ رک گیا۔
قابل ذکر ہے کہ اس فارمولے کے حوالے سےکشمیری قیادت اور پاکستان کی عسکری
قیادت کو سخت تحفظات لاحق ہیں چونکہ اس فارمولے کو قبول کرنا گویا دوقومی
نظریے کو مسترد کرنا ہے۔ اس پر الگ سے بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس پر
بحث کی ضرورت بھی ہے۔
ذرائع کے مطابق آگرہ کانفرنس میں صدر پرویز مشرف نے بھارتی حکام کویقین
دہانی کرائی تھی کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر اگر کوئی
پیشرفت ہوتی ہے تو تو چین کا مقبوضہ کشمیر بھی اس پیشرفت کا حصہ بنے گا
چنانچہ پاک چین اقتصادی راہداری اسی منصوبے کی ایک کڑی ہے۔
بہرحال اقوام متحدہ ، کشمیری قیادت اور پاکستان و ہندوستان کے رہبروں کو
مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی ناجائز طور پر موجود سات لاکھ فوج کے بارے
میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔یہ اسی طور پر ممکن ہے کہ جب
ہم عوامی سطح پر اس مطالبے کو اٹھائیں اور اسے ایک بیانیے کی صورت میں
ڈھالیں۔
ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پانچ فروری سے پہلے، اپنی زبان و
بیان اور قلم کے ذریعے اقوامِ عالم کی توجہ کشمیر کی مظلوم ملت کی طرف
مبذول کروائیں۔اور پانچ فروری کو مشرق و مغرب میں شجر و حجر یہ پکارتے ہوئے
نظر آئیں کہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہم سب کشمیری ہیں اور
ہم سب کشمیر کے مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ |