تحریر: مشعل اسلام
سڑک کنارے سردی و گرمی سے بے نیاز ہر عمر کے نوجوانوں کو، راہگیروں کی
چبھتی نظروں سے لاعلم موبائل کی دنیا میں مست دیکھنا معمول کی بات ہوچکی ہے۔
کسی باغ کا گوشہء تنہائی ہو یا گلی کا نکڑ، پھل فروش کا ٹھیلا ہو، اسکول و
کالجز ہوں یا یونی ورسٹی۔ غرض معاشرے میں جگہ جگہ، ہر جگہ کان سے متاع جاں
کی طرح موبائل چپکائے طویل گفتگو اور راز و نیاز کرتے نوجوان نظر آئیں گے۔
ہمارے نوجوان موبائل کے سحر سے مکمل مسحور ہوچکے ہیں۔ اکثر والدین کی طرف
سے شکایت ملتی ہے کہ بچے ہر وقت موبائل پہ لگے رہتے ہیں ہماری تو سنتے ہی
نہیں۔
موبائل پہ جائز و ناجائز دوستیاں کرنا اب ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ ہماری
نوجوان نسل کی فکر و شعور کو زنگ لگ گیا ہے۔ وہ اپنا مقصد حیات ہی بھول چکے
ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت کا عقل و شعور کی منازل طے کرتے ہی مقصد حیات دولت
و شہرت کا حصول بن گیا ہے۔
ہم بھول چکے ہیں کہ ہم ایک ایسے رسولﷺ کی امت ہیں کہ جو آخری پیمبر ہیں، اب
نہ نبی آئیں گے نہ رسول۔ ہم آخری امت ہیں۔ ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد
رضائے الٰہی کی خاطر تعمیل و ترویج اسلام ہے۔ ہمیں لوٹنا ہے اپنے اصل مسکن
کی طرف۔ہمارا مستقبل آخرت ہے۔ ہر عیش و آرام وہاں دائمی ہو گا۔ وہاں ہر
نعمت کو دوام ہوگا۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے بعد اب
قیامت قریب ہے۔ ہم اس دنیا کے آخری حصے میں بھیجے گئے ہیں، یوم الدین قریب
ہے، یہ زمین اپنی آخری سانسیں تیز تیز لے کر خود حکم الٰہی سے اپنے اختتام
کی جانب محو سفر ہے۔ عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم دنیا میں رہتے ہوئے آخرت
کی تیاری کریں تاکہ کل جو اٹل ہے اس کی رسوائی سے بچیں۔ صد حیف! ہمارا
نوجوان اپنا آپ گنوانے میں مصروف ہے۔
حیف! دنیا کا تو ہو پروانہ تو
اور کرے عقبی کی کچھ پرواہ نہ تو
کس قدر عقل سے ہے بیگانہ تو
اس پہ بنتا ہے بڑا فرزانہ تو
ایک شام ایک بہن کے نمبر پر آنے والے ایک پیغام کا مختصر خلاصہ،
اجنبی،’’السلام علیکم‘‘۔ادیبہ،’’جی کون‘‘؟۔ اجنبی، ’’آپ کون؟ میرا نام اسلم
ہے‘‘۔ ادیبہ، ’’آپ کا پیغام آیا ہے بھائی، آپ بتائیے کس سے بات کرنی ہے‘‘؟۔
اجنبی،’’آپ کا نام؟ یا میں نام رکھ لوں کوئی‘‘؟۔ادیبہ، ’’میرا نام عبداﷲ ہے۔
اب سکون کرو‘‘۔ اجنبی، ’’کہاں سے ہو‘‘؟ (وغیرہ وغیرہ گویا اسے یقین تھا کہ
یہ کسی عورت کا ہی نمبر ہے۔) ادیبہ، ’’آپ کو کس نے حق دیا ہے دوسروں کا وقت
برباد کرنے کا؟ زندگی کا مقصد ڈھونڈیں یوں مارا مارا پھرنے سے بچ جائیں گے۔
اجنبی، ’’آپ پہ حق جتانا چاہتا ہوں اور زندگی کا مقصد بھی آپ ہی ہو شاید آپ
کی ہی تلاش میں تھا اب تک‘‘۔
ادیبہ غصے سے بل کھا کے رہ گئی۔ اتنا فضول بندہ اس کا خون ہی کھول اٹھا،کی
بورڈ پہ اس کی انگلیاں تیزی سے تھر تھر کانپنے لگیں اس کے اندر ایک لاوا
تھا جو نکلنے کو بے تاب تھا شاید اسے بھی بہانہ ہی مل گیا۔ کہیں سے نہیں
لگتا کہ یہ مسلم قوم ہے۔ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود۔ پیغمبرِ
اسلامﷺ کے صحابہ کے حیاء کا یہ معیار تھا کہ ملائک ان سے حیاء کرتے اور ایک
یہ ہیں آج کے مسلم نوجوان نبی اکرمﷺ کی محبت کے دعویدار حیاء و عصمت کے
سارے عناصر سے عاری جن کے لہو سے غیرت ایمانی کا عنصر مفقود ہو چکا ہے۔
جنہیں اپنی ہی ماں، بہن، بیوی میں تمیز مشکل ہے۔ جن کا مقصدِ زندگی زر، زن
اور زمین بن گیا ہے۔
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں ہنود اوراسلام دشمن عناصر، ملک دشمن
قوتوں نے مسلمان عورت کی حیاء کی رداء اتار دی، عورت کو چوک چوراہے میں
دعوت نظارہ کے لیے لا کھڑا کیا۔ ادھر نوجوانانِِ اسلام نے نماز و قرآن،
تعلیم اسلام سے خود کو دورکرکے شیطان کا آلہ کار بننے میں عزت جانی۔
خواہشات نفسانی کا غلام بن گیا پھر اپنی ہی مسلمان بہن ماں بیٹی کو للچائی
نظر سے دیکھنے لگا۔وہ قوم جس سے کفار کے دل لرزتے تھے، وہ غیرت مند قوم، وہ
مسلمان جن میں عمر رضی اﷲ عنہ جیسا جری تھا جن کو دیکھ کے شیطان راستہ
بدلتا تھا۔ اسی قوم کے نوجوانوں کو اب شیطان بغل مین دبائے پھرتا ہے۔ اسلام
تو ایسا خوبصورت دین ہے کہ جس کے کڑیل نوجوان بہنوں کی عصمتوں کی خاطر
ہندوستان اور ہندوؤں کی چھاتیوں پہ مونگ دلنے ایک بہن کی پکار پہ پہنچ
جائیں مگر اب خود بہنوں کو شکار کرکے ان کے سروں سے چادریں اتارکے عصمت تار
تار کرنے پہ تلے ہیں۔
آج اسلام دشمن قوتیں برما، کشمیر غرض ہرجگہ مسلمان کے لہو کی پیاسی بنی ان
کا خون چوس رہی ہیں۔ درندہ صفت دشمن اس کی عفت مآب بہنوں ماؤں کو بھنبھوڑ
رہا ہے پھر بھی مسلم نوجوان دشمن کی چال سے انجان ہے۔(دوسری طرف سے مکمل
خاموشی) ادیبہ، ’’تم مسلمان ہو جن کو ان کے رب نے نظریں نیچی رکھنے کا حکم
پہلے دیا ہے، عورت کو حجاب میں نکلنے کا بعد میں۔ تمہاری منزل تو جنت تھی۔
ارے تم تو نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی للکار ہوتے۔ تمہیں
تو اقصی پکار رہی ہے۔
مسجدِ اقصی سراپا فغاں ہے
صلاح الدین ایوبی کہاں ہے؟
تم کیسے اپنی منزل عورت و دولت، رقص و سرود کے پیچھے کھوٹی کرنے میں مگن
ہوگئے؟ مسلمان کا مقصد ہی اﷲ و رسول اﷲ ﷺ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنا
ہے کہ جیسا اﷲ چاہے گا شب و روز ویسے گزاروں گا۔انسان تو سب انسان مگر کلمے
والے اﷲ کے غلام، باقی سب نفس کے غلام۔ اگر مسلمان اور کافر کی زندگی کا
مقصد ایک ہی ہو ان کے دن و رات یکساں نمونہ پیش کرنے لگیں تو پھر یہ کیسی
مسلمانی؟
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے مسکرائیں یہودکہ ہماری من چاہی زندگی گزارتے،
رب چاہی نہیں افسوس! صد افسوس۔یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے غضبناک ہے
معبود‘‘۔ (اس پیغام کے بعد اجنبی نمبر کتنی ہی دیر سے خاموش) ادیبہ،’’اب
بولیے چپ کیوں لگ گئی؟ آپ کو کسی بے حیا عورت کی تلاش ہے؟ جو موبائل پہ چھپ
چھپ کے بات کرے، جو والدین کی عزت کا جنازہ نکالے، جو شیطانی کام میں آپ کی
مددگار بنے۔ جو خود بھی اپنی روح کو گندگی کا گڑھا بنائے اور امت کے
نوجوانوں کو بھی فحاشی کا درس دے۔ ایسا ہی ہے نا؟
(اجنبی خاموش) ادیبہ، ’’یاد رکھیے! آج مسلمانوں پہ ہرطرف سے کافر غالب آگئے
ہیں، وہ اس لیے کہ مسلمان بدچلن ہوگیا، بے حیا و بے ضمیر ہوگیا ہے۔ اپنے
دین کی تعلیمات سے دور ہوگیا۔ ایک ایک کرکے مسلمان ملکوں کو تباہ کرنا ان
کا منشور ہوگیا۔ مسلم حکمرانوں کا عیش پرست ہوکر، اپنا فرض منصبی بھلا کر
شراب و کباب کا رسیا ہونا ان کے لیے راہیں ہموار کرگیا۔
جس ملک کا عوام جتنا نافرمان ہوگا بے حیا و بے حس ہوگا، اس ملک کی تباہی
اتنی قریب ہوگی۔ یوں مت سمجھیے کہ شام و عراق و افغان و کشمیر میں مسلمان
تختہ مشق بنے رہیں گے، ہم تو باب السلام، دارا الاسلام میں رہتے ہیں۔ اے
نوجوانو! خوش فہمیوں سے نکل آؤ! غفلت کے خول توڑ دو! جاگ جاؤ،خدارا! اب تو
ہوش کے ناخن لو! اپنا ماضی دیکھ لو اور حال پہ نگاہ ڈالو پھر اسی سے مستقبل
میں جھانک لو۔ تم ہی بتاؤ جو آج لچھن ہیں کیا یہ تابناک مستقبل کا پتا دے
رہے یا؟
(راوی کہتا ہے کہ اس پیغام کے بعد تاحال اجنبی خاموش ہے)
امید ہے محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی لاج رکھیں گے کلمہ، جو
آپ کے دل میں ہے اس پہ سوچ وبچار کریں گے۔ اپنی حیات فانی کا مقصد ڈھونڈیں
گے۔ |