سوشل میڈیا پر فوجیوں کے لیے قباحت کیا؟

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر بڑھا ہے کہ اب سیاسی جماعتیں، ریاستی ادارے، سماجی کارکن، طلبا اور انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والوں کی اکثریت معلومات کے حصول اور اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی فوج بھی معلومات اور بیانات کی ترسیل کے لیے سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارم جیسا کہ فیس بک اور ٹویٹر استعمال کر رہی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہان اپنے سرکاری اور ذاتی اکاؤنٹ استعمال کرتے رہے ہیں لیکن انہی ویب سائٹس پر کئی بار اعلی افسران سے منسلک ایسے فیک اکاؤنٹس بھی منظر عام پر آئے جنہیں رد کرنے کے لیے خود فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کو بتانا پڑا کہ ان کے علاوہ فوج سے منسوب دیگر تمام اکاؤنٹس جعلی تصور کیے جائیں۔
 

image


لیکن کیا پاکستانی فوج کا افسر سوشل میڈیا استعمال کر سکتا ہے؟ اور اگر ہاں تو اس بار ے میں فوج کے قواعد و ضوابط کیا ہیں؟ یہی سوال ہم نے ماضی میں پاکستانی فوج میں جج ایجوٹنٹ جنرل برانچ کی سربراہی کرنے والے لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب سے پوچھا۔ خیال رہے کہ فوج کی یہ برانچ افسران اور جوانوں میں ڈسپلن کی پابندی یقینی بناتی ہے اور اس ضمن میں فوج میں تمام مقدمات سننا اور سزاؤں کا تعین کرنا بھی اسی شعبے کی ذمہ داری ہے۔

جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کےاہلکار سوشل میڈیا استعمال کر سکتے ہیں لیکن کئی قواعد کی پابندی لازمی ہے، 'ایسا ممکن ہے کہ کسی معاملے پر فوج میں تحریری شکل میں پہلے سے کچھ بھی موجود نہ ہو۔ لیکن عام طور پر فوج میں ایسے تمام معاملات سیکیورٹی کی چھتری تلے آتے ہی ان پر وہ تمام قوانین لاگو ہو جاتے ہیں جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ادارے کی سلامتی سے متعلق ہیں'۔

سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں فوج میں تمام قواعد و ضوابط موجود ہیں اور ہر سطح پر فوجی اہلکاروں کی سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق تربیت اور رہنمائی کی جاتی ہے جس پر سختی سے کاربند رہنا لازمی ہے'۔

سوشل میڈیا یا عام ڈسپلن کے معاملات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہ پوسٹ یا اکاؤنٹ یا آگے پھیلائی جانے والی معلومات:

1- کیا فوج کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہے؟

2- کیا اس معلومات یا اقدام کے فوجی جوانوں پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

3- کیا شیئر کی گئی یہ معلومات سیکیورٹی بریچ ہے یعنی کیا کوئی خفیہ معلومات فراہم کی گئی ہے؟

4- اور کیا کسی فوجی کارروائی، آپریشن کی تیاری، فوجی دستوں یا فوجی ساز وسامان یا خود اس افسر نے اپنی نقل و حرکت سے متعلق کسی قسم کی تفصیل کہیں شیئر کی؟

5- کیا کوئی غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسی سوشل میڈیا کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو 'ہنی ٹریپ' کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟
 

image


جنرل امجد شعیب کے مطابق 'اس قسم کی کوئی بھی معلومات مختلف گروپس سے ہوتی ہوئی دشمن تک پہنچ سکتی ہے جو فوج کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فوجی اہلکاروں کو سوشل میڈیا کے استعمال میں خاصی احتیاط برتنے کی واضح ہدایات کی جاتی ہیں'۔

ان کے مطابق سایئبر سیکیورٹی ایک نہایت اہم معاملہ ہے جس پر فوج میں خاصی توجہ دی جاتی ہے، واضح رہے کہ سماجی رابطوں کی بیشتر ویب سائیٹس کی سرورز چونکہ پاکستان میں نہیں ہیں 'اس لیے بھی ان کے محفوظ ہونے کے باوجود کم از کم فوج کی حد تک انہیں ہرگز قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جاتا، یہی وجہ ہے کہ عام طور پر فوج میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس یا انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی قسم کی معلومات کے تبادلے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے'۔

دنیا کی دیگر افواج کی طرح پاکستان میں بھی کسی بھی ایسے کمپیوٹر جس پر حساس معلومات موجود ہوں اسے انٹرنیٹ سے کنیکٹ نہیں کیا جا سکتا۔

'کسی بھی قسم کی حساس معلومات، چاہے وہ کسی کاروائی سے متعلق ہو یا انتظامی امور سے متعلق، ذاتی ای میل یا سماجی رابطوں کی کسی بھی ویب سائیٹ یا ایپلیکشن کے ذریعے شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

کوئی بھی ایسی تصویر جس میں فوجی دستوں یا ساز و سامان یا کاروان کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات مل سکتی ہیں، سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر شیئر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

کسی بھی یونٹ کا پتہ یا فوجی اہلکاروں کے یونیفارم پر موجود یونٹ کا نشان دکھانے کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری موبائل فونز کو بھی غیر محفوظ انٹرنیٹ سے کنیکٹ کرنے کی ممانعت ہے تاکہ گوگل یا دیگر ایسی ایپس کے ذریعے اس اہلکار کی لوکیشن کا پتہ نہ چلایا جا سکے'۔

جنرل ر امجد شعیب کے مطابق 'دنیا بھر کی افواج میں اس قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں تاکہ ادارے کی ساکھ اور ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر انڈین فوج میں حالیہ کچھ عرصے میں ایسے کیسز سامنے آئے جب جوانوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے اپنے تحفظات لوگوں تک پہنچائے، اگرچہ ان جوانوں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی لیکن یہ بہرحال انڈین فوج کے لیے یہ ایک کمپرومائیزنگ صورتحال بن گئی تھی'۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: