تحریر: ندا عروج
ایک انسان دنیا میں آ کر اور دنیا سے جانے تک کے سفر میں مختلف چیزوں کے
حصول کی تگ و دو کرتا ہے۔ سب سے پہلے دنیا میں آنے کے بعد انسان کی بنیادی
ضرورت کھانا پینا ہوتی ہے۔ جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور پھر
جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے۔ اس کی ضروریات زندگی میں بھی تبدیلیاں
آتیں ہیں۔ جیسے بچپن میں ایک بچے کے لیے اس کے ماں باپ سب کچھ ہوتے ہیں۔ اس
کے بعد انسان کے دوست احباب اور اِسی طرح گزرتے وقت کے ساتھ نئے رشتے بنتے
رہتے ہیں اور سب کی اہمیت بھی بدلتی رہتی ہے۔
کچھ لوگ پیسے، شہرت، عزت کو زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں اور پیسہ کمانے میں
اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کو اپنے ارد گرد کے لوگوں، جاننے والوں اور
رشتے داروں کسی کی خبر نہیں رہتی۔ وہ پیسہ کمانے اور بڑا آدمی بننے کی دھن
میں اپنے قریبی رشتوں سے اس قدر دور ہوجاتے ہیں کہ واپسی کا راستہ دھندلا
پڑجاتا ہے۔ اگر مقاصد زندگی کو سمجھا اور پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ
انسانی زندگی میں پیسے کی حیثیت ثانوی ہے۔ روپیہ، پیسہ، بنگلہ، گاڑی کبھی
انسانی رشتوں اور ان سے ملنے والی محبت کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ پیسہ
انسان کی زندگی سے سکون اور طمانیت کو رخصت کردیتا ہے۔ انسان ہمیشہ زیادہ
سے زیادہ کی ہوس میں اپنا چین و سکون سب کھو بیٹھتا ہے۔
ہم سے اگر کوئی سوال کرے کہ ہماری زندگی کا حاصل کیا ہے تو شاید ہم اپنی
ڈگریاں یا نوٹوں کی گڈیاں پیش کردیں لیکن در حقیقت آپ کی زندگی کا حاصل آپ
کا رویہ ہے جس سے انسان کی پہچان ہوتی ہے، جو انسان کو کامیاب بنانے میں
اور اس کامیابی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اکثر لوگوں سے
یہ محاورہ سنا ہے، ’’جس کے پاس پیسہ ہے، اْس کی ہی عزت ہے۔ اْس کے ہی سب
رشتہ دار ہیں‘‘۔ لیکن یہ ایک انتہائی غلط نظریہ ہے۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو علم ہوگا کہ علامہ اقبالؒ، قائد اعظمؒ، ایدھی صاحب
کا نام آج بھی زندہ ہے اور انسان کو مرنے کے بعد بھی ایک ہی چیز زندہ رکھ
سکتی ہے اور وہ ہے انسان کا اخلاق۔ اخلاق وہ ہتھیار ہے جو دشمن کو بھی زیر
کرسکتا ہے۔ اس اخلاق میں روپیہ پیسے سے کہیں ھ زیادہ طاقت ہوتی ہے یہ پل
بھر میں سخت دل انسان کو بھی موم کردیتا ہے پس زندگی کاحاصل وہی ہے جو اپنے
اچھے اخلاق سے کمایا۔ |