جوتا چرائی کی رسم مسجد میں ہی کیوں ادا کی جاتی ہے ؟

تصور کریں اگر آپ کسی مسجد کے امام ہیں ‘ لوگ آپ کا بے حد احترام کرتے ہیں ‘ ہر نماز کے بعد قطار میں کھڑ ے ہوکر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ‘ بیعت کا مقصد یہ ہے کہ ہم آئندہ بھی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں ضرور آئیں گے ‘اگر کسی کو کہیں جاناپڑ جائے تو امام صاحب کو ضرور مطلع کرتا ہے تاکہ اس کی غیر حاضری میں اس کے حق میں دعاؤں کا سلسلہ رک نہ جائے ‘ امام صاحب ابھی نماز سے فارغ ہوتے ہیں کہ بچے ہاتھوں میں سپارہ اور قرآن پاک لیے مسجد کی دہلیز پر کھڑے نظر آتے ہیں ‘ امام صاحب دعا کرتے ہیں پھر بچوں کو قرآن پاک پڑھانا شروع کردیتے ہیں ‘ امام صاحب مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو ہر دکاندارانہیں دیکھ کر سلام کرنا اپنے لیے اعزاز تصور کرتا ہے ‘ بازار میں چلنے پھرنے والے لوگ بھی عقیدت کے طور اپنا سر امام صاحب کے سامنے جھکاتے ہیں ۔ امام صاحب جس دکان پر کھڑے ہوتے ہیں دکان کا مالک ‘ سب کو چھوڑکر امام صاحب کی بات سنتا ہے اور خواہش کے مطابق ہر وہ چیز دینے کو آمادہ ہوجاتا ہے جس کی خواہش امام صاحب کرتے ہیں ‘ امام صاحب جب پیسے نکالنے سے پہلے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو دکاندار چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہتا ہے ‘ ہم آپ سے پیسے نہیں لیں گے ‘ بس آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے ‘ امام صاحب اگر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو ڈاکٹر تمام مریضوں کو چھوڑ کر احترام سے کھڑا ہوجاتاہے اور سر جھکا کر اپنی نگاہیں امام صاحب کے قدموں پر ایسے جما دیتا ہے جیسے بادشاہ کے سامنے غلام۔ امام صاحب اپنی بات مکمل کرکے کلینک سے نکلتے ہیں تو ڈاکٹر اپنی توجہ مریضوں کی جانب مبذول کرتا ہے ۔یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ مسلم معاشرے میں امام مسجد کے لیے بے حد عزت و احترام پایا جاتاہے ‘ بیماروں کے لیے دعائیں ‘ شادی شدہ جوڑوں کے لیے نکا ح ‘ نومولود بچوں کے کان میں اذان سے لے کر مرنے والوں کے ایصال ثواب تک کے تمام معاملات بھی امام صاحب کے سپرد ہیں ۔ان حالات میں کوئی ایک بھی یہ نہیں سوچتا کہ امام صاحب تنخواہ کتنی لیتے ہیں ‘ وہ اپنے اہل خانہ کا پیٹ کس طرح بھرتے ہوں گے ‘ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کیسے دلواتے ہوں گے ‘ وہ عید تہوار پر نئے کپڑے کیسے بنواتے ہوں گے ۔ہم میں سے ہر شخص یہی تصور کرتا ہے کہ امام صاحب اﷲ کے نہایت ہی برگزیدہ بندے ہیں ‘ وہ بیمار ہوتے ہیں تو آسمان سے دوائی لے کر فرشتے ان کے گھر اتر آتے ہیں ‘ اگر انہیں بھوک لگتی ہے تو من سلوہ پہلے سے منبر پر موجود ہوتا ہے ‘ پیاس لگے تو حوض کوثر سے بھرے ہوئے جام پہلے سے تیار ملتے ہیں ۔ہم میں سے ہر کوئی اپنے حالات کا روتا ہے لیکن امام صاحب کے حالات جاننے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ‘ بس وہ ہنستے مسکراتے ہر نماز میں گھر سے مسجد پہنچتے ہیں اور نماز پڑھانے کے بعد منظر سے غائب ہوجاتے ہیں ‘ بارش ہو ‘ طوفان ہو ‘ جماعت کے وقت سے چند منٹ پہلے ہی تمام نمازیوں کی گردنیں اس دروازے کی جانب گھومتی دکھائی دیتی ہیں جہاں سے ان کی آمد متوقع ہوتی ہے ۔کوئی باشعور مسلمان یہ تصور بھی نہیں کرتا کہ امام صاحب کی ان کے رویے سے دل شکنی ہو‘ کیونکہ امام صاحب اﷲ کے مقرب ترین بندے ہیں‘ انہیں نہ دھوپ لگتی ہے نہ سردی ‘ نہ بارش کچھ ان کا بگاڑتی ہے نہ کڑکتی ہوئی بجلیاں انہیں خوف زدہ کرسکتی ہیں ‘ وہ ہر قسم کی دنیاوی لذتوں ‘ خرافات اور آفات سے مبرا ہیں ‘ایسا کیوں نہ ہوں وہ منبر رسول پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی امامت جو کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں یہ سب اعزازات حاصل ہیں وہ متقی بھی ہیں اور پرہیز گار بھی ‘ نیک بھی ہیں اور صالح بھی ۔ اس لیے ہر شخص ان کے غصے اور بدعا سے ڈرتا ہے ۔

ان حالات میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بدبخت ایک دن پہلے باٹا شوز کمپنی سے خریدا ہوا نیا جوتا اٹھا کر لے جائے گا ۔ یہ سانحہ بروز ہفتہ 12 جنوری 2019ء کو پیش آیا جب نماز ظہر پڑھنے کے بعد امام صاحب ‘ مسجد سے باہر جانے لگے تو انہوں نے جہاں اپنی نئی جوتی رکھی تھی وہ اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی ‘جوتی چوری ہونا اور واپس مل جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن امام صاحب کی جوتی کا چوری ہونا میری نظر میں بہت بڑا سانحہ ہے ‘ کیاہم اخلاقی طورپر اس قدر گر چکے ہیں کہ ہمیں اپنے ان مقدس رشتوں کے تقدس کا بھی خیال نہیں رہا جو ہمیشہ امت مسلمہ کی سلامتی اور بخشش کے لیے ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔ مجھے اس وقت پتہ چلا جب امام صاحب کے مصاحبین نذیر صاحب اور اسلم آرائیں صاحب مسجد کے اندر کچھ تلاش کررہے تھے ناکامی کے بعد اپنے اپنے گھر کو سکون سے واپس چلے گئے ‘ میں جب نماز سے فراغت کے بعد مسجد سے باہر نکلا تو حسب معمول احترام سے امام صاحب ( قاری محمد اقبال صاحب سے مصافحہ کیا ‘ قاری صاحب مسکرائے اور فرمایا آج میری بھی جوتی کوئی اٹھاکر لے گیا ۔جب وہ یہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کررہے تھے تو ان کے چہرے پر میں افسردگی ‘ مایوسی اور بے چینی کے آِثار دیکھے ‘ بظاہر ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک طوفان اٹھتا ہوا صاف دکھائی دے رہا تھا ‘وہ اس حرکت کو اپنی توہین تصور کررہے ہوں گے اور میں اپنی جگہ سخت شرمندہ تھا کہ ہماری موجودگی میں کس بیہودہ شخص نے امام صاحب کی جوتی کی طرف بری نظر سے دیکھا ۔

میری نظر میں امام صاحب کی جوتی چرانے کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں -:ایک عقیدت کے طور پر ‘ دوسرا ضرورت کی شکل میں ‘ تیسرا انتقام کی شکل میں ہوسکتا ہے ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چند ہفتے پہلے میں مسجد شہداء سے امام صاحب کے لیے چمڑے کی جرابیں اور نئی گرم ٹوپی خرید کر لایا تھا میں نے جب یہ دونوں چیزیں عقیدتا امام صاحب کو پیش کیں تو وہ بے حد خوشی ہوئے انہوں نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے میری دی ہوئی نئی ٹوپی سر پر پہن لی اور اپنے سر پر رکھی ہوئی پرانی ٹوٹی اتار کر مجھے عطا کردی ۔میں نے اس ٹوپی کو خلافت تصور کرکے اسی وقت پہن لیا ۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے مجھے بلڈ پریشر کے مرض نے گھیر رکھاہے ادویات استعمال کرنے کے باوجود بلڈپریشر کنٹرول میں نہیں ہوتا اور خطر ناک حدوں کو عبور کرجاتا ہے۔ایک دن میں نے قاری صاحب سے نہایت ادب سے گزارش کی ‘ قاری صاحب اگر آپ کے سر سے اتری ہوئی ٹوپی پہن کر بھی میرا بلڈپریشر ٹھیک نہ ہوا تو پھر ایک ممتاز عالم ‘ حافظ قرآن ‘ بہترین قاری ‘ معروف نعت خواں اور جامع مسجد "اﷲ کی رحمت" کے امام کی دستار نما ٹوپی پہننے کا کیا فائدہ تھا ۔

میں نے قاری صاحب سے کہا اگر آپ کی ٹوپی پہن کربھی میرا بلڈ پریشر نارمل نہ ہوتو پھر یہ ٹوپی پہننے کا مجھے کیا فائدہ ۔میں آپ کو واپس کردوں گا ۔ میری بات پر وہ مسکرائے اور فرمایا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ‘نماز عصر کے وقت دم کروا لینا ‘ اﷲ نے چاہا تو آپ ٹھیک ہوجائیں گے ۔ میں سمجھتا ہوں یہ قاری صاحب کی کرامت کاایک اور شاہکار ہے کہ ان کی ٹوپی کی بدولت میرا بلڈ پریشر بڑی حد تک ٹھیک ہوچکا ہے ۔ جس پر میں سراپا سپاس گزار ہوں ۔

جہاں تک امام صاحب کی جوتی کو عقیدت کے طور پر اٹھانے کا معاملہ ہے ‘اس حوالے سے ایک واقعہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ سے منسوب ہے -; ایک سید زادہ اجنبی شخص حضرت نظام الدین اولیاؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی کہ میں نے ساری زندگی محنت مزدوری کرکے رزق ہلال کمایا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرا ۔اب میری بیٹیاں جوان ہوچکی ہیں ان کی شادی کے لیے میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں ان کے ہاتھ پیلے کرسکوں ۔آپ ہندوستان کے بے تاج بادشاہ ہیں سناہے آپ کے آستانے پر آنے والا کوئی سوالی خالی ہاتھ نہیں جاتا ۔ یہی سوچ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔حضرت نظام الدین اولیا ؒ نے اس اجنبی کی باتیں غور سے سنیں اور فرمایا تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے کہ میں ہند کا بے تاج بادشاہ ہوں ۔ درویشی میں تو تخت اور تاج کا تصور ہی حرام ہے اور شہنشاہ صرف اﷲ کی ذات ہے میں تواس کی عظیم الشان سلطنت میں رہنے والاایک ادنی سا انسانہوں ۔جسے اس نے اپنی رحمت لازوال کے سائبان میں چھپا رکھا ہے ۔نہ میں یہاں کچھ لے کر آیا تھااور نہ ہی کچھ لے کر جاؤں گا جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ۔وہی اپنے لامحدود خزانوں میں سے جسے چاہتا ہے نواز دیتاہے ۔یہ فرما کر محبوب الہی نے اپنے خادم کو طلب فرمایا اور سرگوشی کے انداز میں فرمایا تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ لے آؤ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب خادم واپس آیا تو سرجھکا کر کہا آج تو ایک تنکا بھی موجود نہیں ۔اجنبی شخص بھی سامنے بیٹھا صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا اور مایوسی اس کے چہرے سے عیاں تھیں ۔محبوب الہی ؒ نے فرمایا اس وقت تمہیں دینے کے لیے میرے پاس صرف اپنے جوتے ہیں اگر تم چاہو تو لے جاؤ ‘ یہ تمہاری ضرورت کو پور ا کردیں گے ۔کچھ دیر تک اجنبی سوچتارہا پھر آپ ؒ کے جوتے اپنے رومال میں لپیٹ کر جانے کی اجازت لی اور انتہائی بے دلی کے عالم میں خانقا سے نکل کر شہر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ چلتے چلتے تھک گیا تو ایک سرائے میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہر گیا ۔

دوسری جانب حضرت امیر خسرو ؒ سلطان علاؤالدین خلجی کے ہمراہ کسی جنگی مہم میں کامیابی کے بعد واپس آرہے تھے جنگ میں شاندار فتح کے عوض بادشاہ نے امیر خسرو ؒ کو پانچ لاکھ اشرفیاں بطور انعام دیں ۔یہ بھی اتفاق ہے کہ ایک ضرورت مند شخص محبوب الہی ؒ کی بارگاہ سے ناکام ہوکر اپنے گھر لوٹ رہا تھا تو دوسری جانب محبوب الہی ؒ کے سب سے پیارے مرید امیر خسرو ؒ گھوڑوں پر لدی ہوئی کثیر دولت لے کر دہلی آرہے تھے ۔امیر خسرو ؒ شاہی لشکر کے ہمراہ جب سرائے کے قریب سے گزرے تو آپ نے اچانک سب کو رک جانے کا حکم دیا اور فرمایا مجھے میرے پیر و مرشد کی خوشبو آرہی ہے ۔بار بار ایک ہی فقرہ دوہرا کر پریشان حالت میں اردگرد کاجائزہ لینے لگے ۔اچانک رک جانے اور پریشانی کی حالت میں گردو نواح کاجائزہ لینے کا سبب پوچھنے کی خاطر فوج کے بڑے بڑے سالار بھی گھوڑوں سے اتر آئے ۔انہوں نے پوچھا امیر آپ کیا محسوس کررہے ہیں ۔ امیر خسرو نے شدید اضطراب کے عالم میں جواب دیا‘ میں اس مقام پر اپنے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اولیا ؒ کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ۔

محبوب الہی ؒ تو غیاث پور میں قیام پذیر ہیں جو یہاں سے بہت دور ہے شاہی سپہ سالار نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا ۔

میں جانتا ہوں کہ ابھی وہ غیاث پور بہت دور ہے مگر میں اس خوشبو کوکیسے نظر انداز کردوں جس نے میرے مشام جاں کو معطر کردیا ہے یہ تمام فضا میرے شیخ کی خوشبو سے معطر ہے ‘ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے وہ یہیں کہیں جلوہ افروزہیں یا پھر اس مقام سے گزر رہے ہیں ۔آخرکار امیر خسرو ؒ خوشبو کاتعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے ۔یہاں خوشبو کا احساس زیادہ تیزہوگیا ۔رات زیادہ گزرجانے کی وجہ سے سرائے کا دروازہ بند ہوچکاتھا ۔سرائے کے مالک کو طلب کرکے سرائے کا دروازہ کھلوایا گیا خوشبو کچھ اور نمایاں ہوگئی ۔امیر خسرو ؒ بے قرار ہوکر سرائے کے ایک گوشے کی طرف بڑھے یہاں ایک مسافر سویا ہواتھا ۔خوشبو اسی کے پاس سے آرہی تھی ۔امیر خسرو ؒ نے اس اجنبی مسافر کو نیند سے بیدار کیا اور پوچھا تمہارے پاس سے میرے شیخ کی خوشبو آرہی ہے ۔؟اجنبی مسافر نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہاں میں محبوب الہی ؒ سے مل کے آیا ہوں لیکن میں کیا بتاؤں انہوں نے مجھ سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا ان کی سخاوت کے بہت چرچے تھے مگر انہوں نے میری بیٹیوں کی شادی کے لیے اپنے پرانے اور ٹوٹے پھوٹے جوتے میرے حوالے کردیئے ہیں کہ یہی جوتے تیری حاجت روائی کریں گے ۔
کہاں ہیں میرے مرشد کے جوتے ۔ امیر خسرو ؒ نے بے قرار ہوکر کہا ۔
میرے پاس موجود ہیں جو قریب ہی ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۔
اے اجنبی شخص کیاتو ان جوتوں کو فروخت کرے گا امیر خسروؒ نے کہا ‘ اس لمحے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ دنیاکی سب سے قیمتی چیز خرید رہے ہوں ۔
امیر ‘ میری حالت پر رحم کھائیں جب اصرار حد سے زیادہ بڑھ گیا تو اجنبی بولا امیر ۔ تم ان جوتوں کی قیمت کیا دو گے ؟
اس وقت میرے پانچ لاکھ اشرفیاں ہیں کیا ان اشرفیوں کے عوض تم یہ جوتے مجھے دے سکتے ہو ۔امیر خسرو ؒ نے عاجزی کے لہجے میں کہا
اجنبی سوچنے لگا کہ کیا میں واقعی صحیح سن رہا ہوں ۔ امیر خسرو ؒ دوبارہ بولے اگر قیمت کم ہے تو میں آپ کو دہلی جاکر مزید اتنی ہی قیمت مزید اداکرنے کو تیار ہوں ۔
اجنبی نے شیخ کے جوتے ‘امیر خسرو ؒ کے حوالے کرتے ہوئے کہا میرے لیے یہی اشرفیاں کافی ہیں کہیں اپنے وعدے سے مکر نہ جانا ۔
سودا طے ہونے پر امیر خسرو ؒ اجنبی شخص کو ساتھ لے کر اس مقام پر پہنچے جہاں گھوڑوں پر لدی ہوئی اشرفیاں قافلے میں موجود تھیں ۔امیرخسرو ؒ نے تمام اشرفیاں اجنبی کو دیتے ہوئے ادب سے مرشد کے پرانے جوتوں کو حاصل کیا اور اپنی دستار میں مرشد کے جوتے لپیٹ کر غیاث پور پہنچے ۔جب آپ ؒ محبوب الہی کے دربار میں پہنچے تو حضرت نظام الدین اولیا ؒ نے فرمایا ۔ خسرو ؒ تمہیں کامیابی مبارک ہو مگر تم اپنے شیخ کے لیے کیا لائے ہو ۔خسرو ؒ نے اپنی دستار میں لپیٹے ہوئے جوتے نکال کر مرشد کو پیش کردیئے اور کہا شیخ کی خدمت میں شیخ ہی کی نشانی لایا ہوں ۔دنیا کی کوئی اور شے اس قابل نہیں تھی یہ کہہ کر امیر خسروؒ محبوب الہی ؒ کے قدموں سے لپٹ گئے ۔

یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہوسکتا ہے امام صاحب کے جوتے بھی کسی عقیدت مند ‘ اپنی عقیدت کااظہارکرنے کے لیے چھپائے ہو ں ورنہ امام صاحب کے جوتوں کو چوری کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ میں نے از راہ مذاق قاری صاحب کی خدمت میں عرض کیا ۔یہ مستند بات ہے کہ مجرم ہمیشہ قریبی عزیز ‘ قریبی دوست یا قریبی معتقد ہی ہوتا ہے جیسے زینب بیٹی (قصور) کے قاتل نے اس کی نمازہ جنازہ میں بھی شرکت کی تھی اور لواحقین سے تعزیت بھی ۔اسی طرح مولانا سمیع الحق کا قاتل ڈی این اے کے ذریعے اس کا اپنا ہی ڈرائیور پکڑا گیا ۔مجھے شک ہے کہ مجھے چھوڑ کر جتنے بھی باقی مصاحبین ہیں ان میں سے ہی کسی کی یہ حرکت لگ رہی ہے ۔ پھر آپ کا سسرال بھی زیادہ دور نہیں ہو سکتا کسی سسرالی عزیز نے جوتا چرائی کی رسم ہی بے شک تاخیر سے سہی اب ادا کرلی ہو ۔

ویسے نمازیوں کو اپنی جان سے زیادہ جوتوں کی حفاظت پریشان رکھتی ہے ‘ مسجدوں میں تو ایسا اکثر دیکھاگیا کہ جوتا سامنے رکھ کر اس کے قریب ہی سجدہ کیا جاتاہے لیکن اکثر علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اگر جوتا آگے رکھاجائے تو نماز نہیں ہوتی ۔ کسی دل جلے نے اس کاجواب یہ دیا کہ اگر جوتا پیچھے رکھا جائے تو پھر جوتا اپنی جگہ نہیں ہوتا ۔ اب کریں تو کیا کریں ۔ویسے یہ سوچنے کی بات ہے کہ جوتاچرائی کی رسم مسجدوں میں ہی کیوں ادا کی جاتی ہے ۔ میں نے امام صاحب سے گزارش کی کہ آپ نے اب جو نئی جوتی خریدی ہے اس کے تلے کے نیچے کمپیوٹر چپ لگوالیں‘ جوتی جہاں بھی جائے گی اسے کمپیوٹر سے تلاش کیا جاسکتا ہے‘ یہ آئیڈیا پاکستان کی مایہ ناز بیٹی ارفع کریم رندھاوا کاہے ایک مرتبہ وہ اپنے والد کے ہمراہ گاؤں گئی راستے میں کچھ لوگ درخت کے سائے میں بیٹھے دکھائی دیئے ‘ ارفع نے والد سے ان کے بارے میں پوچھا ‘والد نے بتایا یہ کھوجی ہیں جو چوروں کے پاؤں کے نشان تلاش کرکے اس مقام پر پہنچ جاتے جہاں چوری کے جانور باندھے ہوتے ہیں ‘ ارفع مسکرائی اور کہا ابو یہ کونسے زمانے کی بات کررہے ہیں یہ کمیپوٹر کازمانہ ہے اگر بھینسوں کے ساتھ کمپیوٹر چپ لگا دی جائے تو چوری ہونے والی بھینس جہاں بھی ہو گی اسے کمپیوٹر پر ایک کلک سے تلاش کی جاسکتاہے ۔چونکہ امام صاحب کے جوتے بھی عام نمازیوں سے زیادہ قیمتی اور متبرک ہوتے ہیں اس لیے اگر نئی جوتی کے ساتھ کیمپوٹر چپ چپکا لی جائے تو آئندہ جوتوں کی چوری سے نجات مل سکتی ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663372 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.