تربیت کا ذمہ دار کون؟

کالم لکھنے کے آفاقی مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں کھلی بات کہنے میں اس بات کا ضرور خیال رکھتی ہوں کہ میری کسی بات سے کسی بھی طبقے کی دل آہ زاری نہ ہو۔ میرا قلم انسانیت دوستی کا علمبردار ہے اور میں اس معاشرے میں رہنے والی ایک عام شہری ہوں جو اُن مسائل کو کھلی آنکھ سے دیکھتی ہوں جن کو دیکھنے کے لیے ہمارے مقتدر طبقات کو خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کالم لکھنے کی ابتداء کی تب میں سمجھتی تھی کہ شاید صرف سیاست پر ہی بات کی جا سکتی ہے۔ مگر اپنی زندگی کی تین دہائیاں مکمل کرنے کے بعد احساس ہوا کہ بندی جس دنیا میں سانس لے رہی ہے وہ اکیسویں صدی کی فضا ہے، اور خوش قسمتی سے ایک ایسے ملک کی مکین ہے جہاں جمہوری حق رکھتی ہے کہ اپنی بات کو کالم کے ذریعے سیاست کے علاوہ بھی عوام و خواص تک پہنچا سکے۔ بادل ناخواستہ اب ایسا بھی نہیں کہ مجھے سیاست سے دلچسپی نہیں اس ناچیز نے ایک ایم اے کی ڈگری سیاسیات میں بھی لے رکھی ہے۔لیکن آئے دن سیاست کی دھجیاں اُڑانے سے بہتر ہے کہ اپنے قلم و کالم کو ایسے مسائل بیان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے جن کے نتائج معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ آج میرے کالم کا موضوع ایک بہت عام استعمال ہونے والا مسئلہ ہے۔ اور یقینی طور پر اخبار کے اس صفحہ پر موجود میرے اہلِ قلم ساتھی اس طرح کے مسائل پر نکتہ اٹھا رہے ہوں گے۔ کہیں سیاست کو سدھارنے کی باتیں ہوتی ہیں تو کہیں پر کرپشن کے کیسز کھلے ہیں۔ لیکن معاشرے کی یہ فضا جہاں مجھے سانس لینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے وہاں میری توجہ اُن مسائل کی طرف چلی جاتی ہے جو آلودگیاں ہمارے اندر موجود ہیں۔ اور جن کا ہمارے اندر سے صاف ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ ناچیز اس قابل نہیں کہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھا سکے لیکن قلم سے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ایک کوشش ضرور کر سکتی ہوں کہ قارئین کے ساتھ اپنے خیالات کو بانٹا جا سکے۔ ہو سکتا ہے کوئی بات کسی پر اثر کر جائے ،چلتے چلتے کسی کا معمہ سلجھ جائے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے ،جہاں اس کو اس دنیا میں خدا کا نائب بنا کر اتارا گیا وہاں مافوق الفطرت مخلوقات کے ساتھ دیگر کئی مخلوقات کو بھی اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اب جو چیزیں انسانی نظر کے حصار میں ہوں ان سے توہر انسان بچاؤ ضرور کرتا ہے لیکن جو چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوں ان سے بچاؤ کے رستے اختیار کرنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ ابلیس جو ازل سے ابد تک انسان اور انسانیت کا دشمن ہے ہر لمحہ ہماری تاک میں لگا ہے کہ کب کس موڑ پر بہکا دے اور ہم رب تعالیٰ کی نافرمانی کے مرتکب ہوں۔ اس شیطان سے بچاؤ کے رستے بھی ہمارا اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ اور قرآن و احادیث کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہم اس نادیدہ دشمن سے اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں ۔ ان مافوق الفطرت چیزوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ خطرناک چیزیں انسان کے اندر جنم لیتی ہیں۔ ان چیزوں کو اختصار کے ساتھ منفی اور مثبت سوچ سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ انسان کے اندر لالچ، حسد، بغض کینہ جیسے خطرناک جراثیم موجود ہیں جو منفی سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کسی دیمک کی طرح نہ صرف اُس انسان کو ختم کرتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ ان کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی نہ صرف گھروں کو تباہ کرتی ہے بلکہ گھروں سے پھیلتی ،معاشرے کو کھوکھلا کرتی ریاستوں تک کو تباہ کر دیتی ہے۔ انسانی تاریخ کی بڑی سے بڑی تباہیوں کو دیکھا جائے تو ہر تباہی کے پیچھے کسی ایک انسان کی لالچ نظر آتی ہے۔پھر چاہے وہ ایک چنگاری ہٹلر کی صورت میں ہو جو سلگ کر اس قدر پھیل جاتی ہے کہ جنگِ عظیم کی صورت ملک کے ملک تباہ کر دیتی ہے۔یا یہ لالچ کسی معاشرے میں سرمایہ داریت کو جنم دیتی ہے۔اور سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا ناسور ہے جو معاشرے کی باقی ماندہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ غربت، تنگدستی، چوری ، رشوت خوری، جھوٹ الغرض تمام معاشرتی و اخلاقی برائیوں کا آغاز سرمایہ دارانہ نظام سے شروع ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جو انسانیت کی اس نہج پر تربیت کرتا ہے کہ اس کا من صاف ہو، اور باطن کی طہارت ایک پاکیزہ معاشرے کو جنم دے۔ اسلام سرمایہ داریت کے برعکس مساوات کا درس دیتا ہے۔ جب معاشرے میں مساوات و عدل کا نظام قائم ہو گا تو تمام معاشرتی برائیاں ازخود ختم ہو جائیں گی۔ کیونکہ یہ غربت ہی ہے جو انسان کو کفر تک لے جا سکتی ہے۔ اور غریب معاشرہ سرمایہ داریت کا نتیجہ ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام اسلام کی پیدا وار نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے اس خطے میں برطانوی سامراج کا نتیجہ ہے۔ قیامِ پاک و ہند کے بعد ظاہری طور پر برطانوی سامراج ختم ہوا لیکن اپنی جڑیں اس معاشرے میں کاشت کر گیا ہے۔ جس کی فصلیں آج تک کاٹی جا رہی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ انسانی سدھار کے لیے بہت سی تحریکوں نے جنم لیا جن کا مقصد اسلامی تعلیمات کا احیاء کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی شخصیت کی نمو کرنا بھی تھا۔ اور یہ تحریکیں اس میں کامیاب بھی رہیں،لیکن مابین تعصبات کی بناء پر فرقہ واریت نے جنم لیا اور ایک ہی خطہ زمین پر بسنے والے لوگ، ایک ہی کلمہ کو پڑھنے والے لوگ ان تعصبات کا شکار ہوئے اور نتیجتاً علاقہ غیر سے اسلام کے دشمن عناصر کو بھی ان کے درمیان گھس کر انتشار پھیلانے کو موقع مل گیا۔ گھوڑو ں اور تلواروں سے لڑی جانے والی جنگیں ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ گئیں۔ حتیٰ کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبل ولیج وار شروع ہو چکی ہے۔ جہاں پلک جھپکتے ہی ابلاغ کا استعمال ممکن ہو گیا۔ آج جبکہ اس جدید ترین دنیا میں بہت سی اخلاقی برائیاں وائرسز کی طرح معاشرے میں پھیل چکے ہیں وہاں ہمیں بھی اپنے اندر ایک ایسے فلٹرنگ پلانٹ کی ضرورت ہے جہاں اپنا محاسبہ کرنا آسان ہو۔ یہ ایک ایسا فلٹرنگ پلانٹ ہو جس میں ان تمام اخلاقی برائیوں کی صفائی کی جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی آئیں۔اپنے اندر مثبت سوچ کا حامل ایسا فلٹرنگ پلانٹ نصب کیجیے جس سے منفی قوتیں ٹکرا کر لرزش پیدا کریں اور آپ کو اندازہ ہو کہ یہاں اس چیز کو سدھارنے کی ضرورت ہے یا اپنے اندر سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ درج بالا منتشر موضوعات کو میں نے ربط کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی اور اس تمام تر بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ معاشرے کی جو بھی تباہی ہو اُس کا آغاز ہمارے اندر سے ہوتا ہے۔ اور اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ یادوسرے الفاظ میں یہ کہہ دیا جائے کہ معاشرے میں جنم لینے والے افراد کی تربیت کا ذمہ دار کون ہے؟اگر ایک معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے تو اس کا ذمہ دار سسٹم کو ٹھہرایا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح گھر میں والدین بچوں کے سربراہ ہوتے ہیں اور بچوں کی تربیت کرتے ہیں ، اور بچوں کے بگاڑ سنوار کے ذمہ دار ہوتے ہیں اسی طرح ریاست کے اندر افراد کے سنوار بگاڑ کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں، ہمارا سسٹم ہے،ہمارے مقتدر ادارے ہیں۔ افسوس معاشرے میں فیکٹریاں لگا کر یا بچے کھچے صاحبِ استطاعت افراد کو انجینئرز، ڈاکٹر، وکیل،استاد، یا کلرک وغیرہ بنا کو پیسوں کی مشینیں تو بنا دیا جاتا ہے لیکن ان کی اخلاقی تربیت کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ اور ہمارا بچہ (معاشرے کا فرد) غیروں کی تقلید کے ہاتھوں چلا جاتا ہے۔اس کی اخلاقیات کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اُس کے سنگین نتائج کا سامنا نسلوں کو کرناپڑتا ہے۔ اس بات کا ذمہ دار ہمارا سسٹم ہے کہ افراد کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں ان کی بنیادی ضروریات ، اور قانون کی بالادستی کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہو، اور افراد کے اندر ایک ایسا فلٹرنگ کا نظام نصب ہو جس سے ان کو اپنا احتساب کرنے کا موقع ملے۔ اسلام کے اخلاقی نظام کو اس طرح تعلیمی نظام کے ساتھ مربوط کیا جائے کہ اس نظام سے نکلنے والا فرد نظامِ عدل کا علمبردار ہو۔ کیونکہ جب کسی فرد کے اندرمثبت سوچ کا حامل فلٹرنگ پلانٹ نصب نہیں ہوتا اس کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ جس راستے پر وہ چل پڑا ہے وہ تباہی کا راستہ ہے۔ ایک بچہ جس ریاست میں جتم لیتا ہے وہاں اُس ریاست کے اصول اُس پر لاگو ہوتے ہیں، اور بالغ ہونے کے بعد بچہ اُن اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔اس ریاست کی شہریت حاصل کرنا اس کا پیدائشی حق ہوتاہے۔جس طرح ریاست کا شہری شہریت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کا بھی پیروکار ہوتا ہے اسی طرح اسلام کا پیروکار چاہے وہ کسی بھی ریاست میں جنم لے اسلام کی تعلیمات کی پیروی کرنا اُس پر لازم ہوتا ہے۔ جہاں اسلامی معاشرے کا نظام ایک انسان کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کرنے کا ذمہ دار ہے وہاں ہر باشعور انسان کے اندر ایک ایسا فلٹرنگ پلانٹ بھی نصب کرنے کی ضرورت ہے جہاں وہ درست اور غلط کی نشاندہی کر سکے۔ اور اپنے اندر جنم لینے والی اُن اخلاقی برائیوں کی جانچ کر سکے جو دین اسلام کی ممنوعہ ہیں۔افراد کی فلٹرنگ کا آغاز ایک چھوٹے سے عمل سے کیا جائے اُس کے اندر یہ احساس اجاگر کیا جائے کہ وہ خود کو ان سوالوں کے جوابات دے سکے۔کیا اُس کے اندر انسانیت سے محبت کرنے والا دل ہے؟ کیا کسی کی کامیابی دیکھ کر حسدو جلن کا شکارہیہے یا ماشاء اﷲ زبان سے ادا ہوتا ہے؟ کیا اس کو محنت کی عظمت کا شعور ہے یا دوسروں کی حق تلفی کر کے ناجائز طریقوں سے رزق کمانا چاہتا ہے؟ اس بات کا بھی پتہ ہو کہ جو رزق کمایا جا رہا وہ حرام ہے مگر پھر بھی وہ ایندھن اپنے پیٹ میں بھر رہا ہے؟ معلوم ہے کہ کرپشن ہے مگر پھر بھی غریبوں کا حق مار کر اپنی تجوریاں بھرتا جارہا ہے۔ جب چیک اینڈ بیلنس کا نظام فلٹرنگ پلانٹ سے ہو کرافراد کے اندر سے گزرے گا تو باطن کی انسانیت دوست تبدیلی ایک صحت مند معاشرے کو جنم دے گی۔اﷲ کی مخلوق سے اﷲ کے لیے محبت کا جذبہ پروان چڑھے گا۔ اس دنیا میں انسان کی صورت بھی شیطان موجود ہیں لیکن حق اور ہدایت کے رستے تمام انسانیت کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ جن پر دستک دینا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔اور اس حق سے آشنا کرانے کی ذمہ داری ہمارے حکمرانوں پر، اور ہمارے سسٹم کے ہر اُس ادارے پر عائد ہوتی ہے جو معاشرے میں کارفرما ہیں۔اخلاقیات کا دائرہ صرف دینی مدارس تک محدودنہ ہو بلکہ اسلام کی آفاقی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے سارے سسٹم کو اس کے ساتھ مربوط کیا جائے کیونکہ اخلاقی برائیاں ہی وہ آلودگیاں ہیں جن کی فلٹرنگ کے بعد ایک صحت مند معاشرہ کی طرف بڑھا جا سکتا جو معاشرہ انفرادیت سے تشکیل پاتا ہوا اجتماعی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔اور اگر ہر فرد فلٹرنگ کے عمل سے گزرا ہو تو وہ دن دور نہیں جب ہم خود کو دجالی فتنوں سے پاک کر سکیں گے۔لیکن افراد کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا،مکان وغیرہ) پوری کرنے کے بعد ہی اس کی اخلاقی تربیت کی جا سکتی ہے، وگرنہ بھوک افلاس کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی بے کار ہے۔ اسلام ایک عالمگیر دین ہے، اور قرآن کا مخاطب صرف مسلمان ہی نہیں تمام انسان ہیں۔ اسلام عدل کا درس دیتا ہے اور دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ عدل کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ۔ اور ایک ریاست میں عدل کا نظام اسی بات کا متقاضی ہے کہ افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ قانون کی بالادستی بھی قائم ہو اور افراد کی اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہو۔ اس لیے ریاست کے اندر افراد کی تربیت کے ذمہ دار ہمارے حکمران، ہمارا سارا سسٹم اور تمام مقتدر ادارے ہیں جن کی پالیسیاں ملک میں نافذ ہوتی ہیں۔ اگر ریاست کے نظام میں افراد کی تربیت کا خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہو گا تو افراد کے بگاڑ کا ذمہ دار ہمارا نظام ہی ہو گا۔ آپ میری باتوں سے کس قدر اتفا ق کرتے ہیں اپنی آراء مجھے ای میل ضرور کیجیے۔بہت شکریہ
 

Saima Jabeen Mehak
About the Author: Saima Jabeen Mehak Read More Articles by Saima Jabeen Mehak: 9 Articles with 6952 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.