حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے
پانچ نام ہیں میں محمد اور احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اللہ
تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو محو کر دے گا اور میں حاشر ہوں۔ سب لوگ میری
پیروی میں ہی (روزِ حشر) جمع کئے جائیں گے اور میں عاقب (یعنی سب سے آخر
میں آنے والا) ہوں۔
:: بخاری شریف،کتاب : المناقب، 3 / 1299، الرقم : 3339،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے،
جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک
گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس
پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے : یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں
خاتم النبیین ہوں (یعنی نبوت ختم ہوچکی اب کوئی نبی رسول ہرگز ہرگز نہیں
آئے گا)
:: بخاری شریف،کتاب مناقب، 3 / 1300، الرقم : 3341 -
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی اسماء گرامی بیان کئے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مقفی (بعد
میں آنے والا) اور حاشر (جس کی پیروی میں روزِ حشر سب جمع کئے جائیں گے)
ہوں اور نبی التوبہ، نبی الرحمہ ہوں۔
:: مسلم شریف، کتاب : الفضائل،4 / 1828، الرقم : 2355،
حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے
بنی کنانہ کو اور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو
اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب بخشا اور پسندیدہ قرار دیا۔
:: مسلم شریف، کتاب: فضائل،4 / 1782، الرقم : 2276،
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی
آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! عدل سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کم بخت! اگر میں عدل
نہیں کرتا تو اور کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا
رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں (یا حضرت عمر
بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مجھے اجازت دیجئے، میں اس
خبیث منافق کی گردن اڑا دوں۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے
روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے۔ لیکن وہ
لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر
پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر
نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ
ہوگا اور تیر (جانور کے) گوبر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان
مسلمان نما یہود ونصاریٰ کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق
ہی نہ ہو گا)
:: بخاری شریف، کتاب : استابة المرتدين والمعاندين، 6 / 2540، الرقم :
6534، 6532،
کتاب : مناقب،3 / 1321، الرقم : 3414،
کتاب : فضائل القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771،
کتاب : الأدب، 5 / 2281، الرقم : 5811،
مسلم شریف، کتاب : الزکاة، 2 / 744، الرقم : 1064،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی مومن ایسا نہیں کہ دنیا و آخرت میں جس کی جان
کا میں اس سے بھی زیادہ مالک نہ ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’نبی
مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب
ہیں۔‘‘ (الاحزاب، 33 : 6) سو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو جو بھی اس کا
خاندان ہوگا وہی اس کا وارث ہوگا لیکن اگر قرض یا بچے چھوڑ کر مرے تو وہ
بچے میرے پاس آئیں میں ان کا سرپرست ہوں (اور میرے بعد میرا نظامِ حکومت یہ
دونوں ذِمّہ داریاں نبھائے گا)۔
:: بخاری شریف، کتاب تفسير / الأحزاب، 4 / 1795، الرقم : 4503،
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا : (یا
رسول اﷲ!) میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا،
مگر نہ تو میں نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر کسی کو پایا
اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔
:: مجمع الزوائد، 8 / 217.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : میں نکاح کے ساتھ متولد ہوا نہ کہ غیر شرعی طریقہ پر، اور
میرا (یہ نسبتی تقدس) حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عبداللہ اور
حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہما کے مجھے جننے تک برقرار رہا (اور زمانہ جاہلیت کی
بدکرداریوں اور آوارگیوں کی ذرا بھر بھی ملاوٹ میری نسبت میں نہیں پائی
گئی)
:: مجمع الزوائد، 8 / 214
حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ
عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں
حاضر ہوئے اور وہ اس وقت (کافروں سے کچھ ناشائستہ کلمات) سن کر (غصہ کی
حالت میں تھے، پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ صحابہ کرام رضی
اللہ عنھم نے عرض کیا : آپ پر سلامتی ہو آپ رسولِ خدا ہیں۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا
نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر
مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ
(یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین
قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا، پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین
گھرانہ (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے
میں ذاتی شرف اور حسب و نسب ہر ایک لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)
:: ترمذی شریف، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 5 /
543 الرقم : 3532، |