سَعدِیَہ بِنتِ خُوْرشِیْد اَحمَد
بیت اللہ جانے کے لیے کس کا دل نہیں تڑپتا۔۔۔؟ ہر بندۂ مومن جو اللہ اور
اسکے رسول سے سچی محبت کرتا ھے اسکا دل ہر وقت اللہ کے گھر کی زیارت کو
ترستا ھے۔ اللہ رب العزت نے مجھے بھی ماہ رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت
نصیب فرمائی۔
وہ دن آ گیا جس کا مجھے ایک لمبے عرصے سے انتظار تھا۔
ابو ظہبی میں رکنے کی وجہ سے تھکاوٹ ھو گئ تھی جدہ ائیر پورٹ سے بس پر بیٹھ
کر نیند اور تھکاوٹ کی وجہ سے برا حال تھا لیکن جیسے ہی ہم حرم کی حدود میں
شامل ھوئے دل اللہ کی محبت کے نغموں اور اسکی تعریفات سے منور ھو گیا۔ مکہ
شہر سے محبت ھونے کی وجہ سے اسکو دیکھ کر نہایت ہی سکون اور خوشی محسوس ھو
رہی تھی کیونکہ اس شہر کی قسمیں اللہ رب العزت نے قرآن میں کھائی ھیں۔
راستے کی طوالت اور تھکاوٹ بیت اللہ کو دیکھنے کی تڑپ اور چاھت کے آگے ماند
پڑ گئی۔ ہم قیام گاہ میں سامان رکھ کر فوراً حرم کی جانب بڑھے۔ راستے میں
ہر طرف لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ھوئے لوگوں بیت اللہ کی جانب
بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ بیت اللہ میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی
دے رہا تھا۔ اللہ کے مہمان دور دراز سے سفر کر کے اللہ کے گھر میں حاضری
دینے آئے تھے۔ گورے ھوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی ، سب اللہ جل جلالہ کے
سامنے سر جھکائے، امیدوں کے دامن پھیلائے نہایت ہی عاجزی و انکساری سے گریہ
و زاری کرتے نظر آ رہے تھے۔کچھ لوگ دنیا و ما فیہا سے بے نیاز رکوع و سجود
میں منہمک تھے۔ ننگے سر، ننگے پاؤں، ایک تہبند اور ایک چادر اوڑھے امیر اور
غریب سب ایک جیسے نظر آ رہے تھے۔ آج یہاں سب امتیازات ختم ھو چکے تھے۔ اتنا
حسین اور دلکش منظر دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے برس پڑیں جیسے اللہ سے کہہ
رہی ھوں کہ اتنی عظمتوں اور عزتوں والے اللہ نے تمام نسبی امتیازات کو ختم
کرواکے سب کو ادھر ایک پلیٹ فارم پہ جمع کر لیا جہاں سب برابر ھیں۔ طواف
جیسا عظیم فریضہ ادا کرنے کے دوران اپنے والدین، پاکستان کی ترقی، بیماروں
اور فوت شدگان کے لیے دعائیں کیں۔ طوافِ کعبہ کے بعد صفا و مروہ کی جانب
بڑھی۔ اتنا خوبصورت اور پر سکون ماحول دیکھ کر میں پرانی یادوں میں کھو گئی
کہ ایک وقت تھا جب سیدنا اسماعیل علیہ السلام بچے تھے اور شدید پیاس کی وجہ
سے بلک رہے تھے اور سیدنا حاجرہ سے اپنے لخت جگر کی یہ تشویش ناک حالت
دیکھی نہ گئی تو فوراً پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑیوں پہ چکر لگانے
لگی اللہ کریم کو انکا یہ فعل اتنا پسند آیا کہ اسے عمرہ کے اراکین میں
شامل کر کے تا قیامت آنے والے مسلمانوں کے لیے اہم رکن قرار دے دیا کہ اگر
انکی سنت کو اپناتے ھوئے صفا و مروہ کی سعی نہ کی گئی تو عمرہ مکمل نہیں ھو
سکتا۔ سعی کے دوران پہلے ادوار میں مشکلات اور موجودہ دور میں آسانیاں دیکھ
کر بے اختیار منہ سے تشکر الٰہی کے کلمات ادا ہونے لگے۔ عمرہ مکمل کرنے کے
بعد اتنا سکون محسوس کیا اور میں نے اپنے آپکو اتنا ہلکا محسوس کیا شاید اس
سے پہلے کبھی نہ کیا ھو۔
اسکے بعد سب سے اوپر والی چھت پہ نمازِ تراویح ادا کی اور تراویح کے بعد
چھت سے بیت اللہ کو دیکھ کے دل خوشی سے جگمگا اٹھا۔ رات کے وقت، لائٹوں سے
مزین حرم نہایت ہی خوشی کا باعث بن رہا تھا۔ اگلے دن فجر کی نماز ادا کرنے
کے بعد حسبِ معمول تلاوت قرآن مجید اور اشراق کی نماز ادا کر کے مطاف میں
بیٹھ کر کعبتہ اللہ کو دیکھنے لگی۔ آفتاب اپنی سنہری رو کرنوں کو بیت اللہ
سے سمیٹتے ھوئے پردۂ غروب میں چھپا کر ٹھندی ہوا کے خنک جھونکوں کو خانۂ
خدا کے پاکیزہ صحن میں رقصاں و خراماں رہنے کا اذن عام دے چکا تھا۔ اس
سہانی و دلفریب فضا میں اللہ کے مہمان نہایت ہی تندہی سے اللہ کی توحید کے
پر کیف نغموں سے اور بارگاہِ ایزدی میں دلگداز آہوں اور سسکیوں اور پرسوز
دعاؤں سے بیت اللہ کی فضا کو معطر کر رہے تھے۔ میری طرح دوسرے لوگ بھی بیٹھ
کے رب تعالیٰ کے مہمانوں کو خانۂ خدا کے گرد چکر لگاتے ھوئے دیکھ کر مسرور
ہو رہے تھے اور محبت بھرے انداز میں حلقوں کی صورت میں آپس میں محو گفتگو
تھے۔ اسی طرح ماہِ رمضان المبارک کے ایام معدودات گزرتے چلے گئے۔ اس دوران
دوسرے ممالک کی کافی خواتین سے ملاقات ھوئی۔ انگریزی زبان جاننے کی وجہ سے
زیادہ تر خواتین سے بات چیت ہو جاتی تھی۔ تبادلہ خیال کے دوران انکی
پاکستان سے محبت دیکھ کر پاکستان سے محبت مزید بڑھ جاتی اور مجھے پاکستانی
ہونے پر فخر محسوس ہوتا۔
عید سے ایک دن پہلے فجر کی نماز ادا کی تو ساتھ میں بیٹھی کم سن بچیوں نے
مجھے سے پوچھا کہ آپکا تعلق کس ملک سے ھے؟ میں نے جب پاکستان بتایا تو وہ
فوراً پیچھے ہٹ گئی اور مزید بات کرنے سے انکار کردیا۔ ایکدم حیرت کے مارے
مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ایسا کیوں؟ آخرکار کافی دیر بعد پوچھنے پر پتہ
چلا کہ یہ انڈین مسلم ھیں اور پاکستان کا نام سنتے ہی اس لیے پیچھے ہٹ گئی
کہ پاکستانی دہشت گرد ھیں لہٰذا انکے ساتھ بات چیت اور بیٹھنے سے پرہیز
کرنا چاہئے۔ اتنی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے کہ چھوٹی سی بچیاں ھیں
اور انکے دماغ میں اتنی بڑی بات۔۔؟؟ مجھے نہایت ہی بے چینی محسوس ہو رہی
تھی۔ بہر حال اسی اثناء میں انکی والدہ سے بات کرنے کا موقع ملا میں نے
انکو ساری بات کہہ سنائی تو انہوں نے انکو ڈانٹا اور انکے سامنے اس بات کا
اظہار کیا کہ ہم مسلمان ہونے کے ناطے پاکستان سے محبت کرتے ھیں اور
پاکستانیوں کی عزت کرتے ھیں۔
آخرکار حسبِ معمول باقی سارا دن بھی گزر گیا۔ شام کے بعد عید کا چاند
نمودار ھو۔ ساری رات خوشی سے نیند ہی نہیں آئی۔ زیادہ رش ھو جانے کے ڈر سے
ھم رات ڈیڑھ بجے ہی حرم کی جانب چل دئیے۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ھوئیں اور
فجر کی اذان کے بعد تکبیرات کا نہایت ہی خوش کن مرحلہ شروع ھوا۔ اتنی
خوبصورت آواز میں اللہ ربّ العزت کی حمد و ثنا سن کے حرم میں موجود ہر چیز
خوشی سے جھوم اٹھی۔ کیسے نہ جھومتی۔۔۔؟؟ آج تو اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے
کیے ھوئے وعدے کی تکمیل کرنی تھی، انکو اجر عظیم کرنا تھا۔ آج تو اللہ جل
جلالہ نے تمام مسلمانوں کے روزے رکھنے کا نیکیوں کو بڑھانے اور گناہوں کو
معاف کر دینے کی صورت میں چکانا تھا۔
نمازِ عید ادا کر کے مبارک باد اور دعائیہ کلمات ادا کرنے کے بعد رہائش گاہ
کی جانب چل دئیے۔ عید گزرنے کے بعد رش انتہائی کم ھو گیا تھا اب طواف آسانی
سے چند منٹوں میں ھو جاتا تھا لیکن ہمارا مدینۃ الرسول جانے کا وقت ھو گیا
اور ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں لیے مدینہ طیبہ کی
جانب روانہ ھوئے۔
(مدینہ طیبہ کا سفر ان شاءاللہ اگلی قسط میں)۔ |