واٹس ایپ نے اعلان کیا ہے کہ اب اس کے صارفین کسی بھی ایک پیغام کو پانچ سے
زیادہ بار فارورڈ نہیں کر سکیں گے۔ ایسا جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی
منشا سے کیا جا رہا ہے۔
کمپنی نے یہ پالیسی انڈیا میں چھ مہینے قبل ہی لاگو کر دی تھی۔
|
|
گزشتہ برس واٹس ایپ کے ذریعہ پھیلنے والی جعلی خبروں کے باعث انڈیا
میں بھیڑ میں ہلاکت کے متعدد معاملے سامنے آئے۔ جس کے بعد واٹس ایپ نے یہ
پالیسی انڈیا میں نافذ کر دی تھی۔ ابھی تک انڈیا کے علاوہ کہیں بھی، ایک
پیغام یوزر بیس مرتبہ فارورڈ کر سکتے تھے۔ تاہم جعلی خبروں کے بازار کو
دنیا بھر میں بند کرنے کے مقصد سے میسیجیز فارورڈ کرنے کی حد پانچ تک لانے
کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
رواں برس انڈیا میں عام انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں ہیں۔ اپریل میں
انڈونیشیا میں بھی عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اور ان انتخابات سے پہلے
جکارتا میں ہونے والے ایک اجلاس میں واٹس ایپ نے نئی پالیسی کو لاگو کرنے
کا اعلان کیا جس میں میسیجیز فارورڈ کرنے کی حد بھی شامل ہے۔
واٹس ایپ کمپنی کے بلاگ کے حوالے سے انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ انڈیا میں
چھ مہینے سے لاگو اس حد کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد کمپنی نے تازہ فیصلہ
کیا ہے۔ اور اس فیصلے کے مطابق اب انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کہیں
بھی میسیجیز کو پانچ سے زیادہ بار فارورڈ نہیں کیا جا سکے گا۔
ایک واٹس ایپ گروپ میں زیادہ سے زیادہ 256 یوزر شامل کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی
اگر کوئی صارف کسی پیغام کو ایسے پانچ گروپز پر فارورڈ کرتا ہے تو زیادہ سے
زیادہ 1280 صارفین کو پیغام بھیج سکے گا۔ تاہم اس سے قبل 5120سے زیادہ
صارفین کو پیغام فارورڈ جا سکتا تھا۔
یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب فیس بک اور واٹس ایپ سمیت متعدد سروسز کو
جعلی خبروں کو پھیلانے میں مدد کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ اس نے وسطی یورپ، یوکرین اور مشرقی
یورپی ممالک کے ان 500 پیجیز کو ختم کر دیا جو مبینہ طور پر جعلی خبروں کو
پھیلانے میں کردار ادا کر رہے تھے۔
واٹس ایپ پر ’اینڈ ٹو اینڈ اینکرپشن‘ کے استعمال کا مطلب ہوتا ہے کہ
پیغامات کو صرف بھیجنے والا اور انہیں حاصل کرنے والا ہی پڑھ سکتا ہے۔ یعنی
ایسے میں جعلی خبروں پر نظر رکھنے کی کمپنی کی صلاحیت محدود ہو جاتی ہے۔
لیکن گزشتہ برس انڈین میڈیا کے مطابق حکومت نے کمپنی سے مطالبہ کیا تھا کہ
وہ اینکرپشن کے قوانین کو بدلے تاکہ غیر قانونی مواد یا جعلی خبروں پر نظر
رکھی جا سکے۔
|