ہم تینوں نوحہ کناں تھے۔ تینوں میں قدر مشترک لاہور کے پرانے باسی ہونا تھی اور نوحہ پرانے لاہور کی حالت زار تھی۔ شہر کس بری طرح بدلا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تباہ کیا گیا ہے وہ قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت ہے۔ ایک صاحب کا تعلق لوہاری دروازے سے تھا۔ وہ دروازہ جس کے سامنے کسی زمانے میں مغلوں کی فوجیں مقیم ہوا کرتی تھیں اور جہاں کسی زمانے میں لوہے کے جنگی ہتھیار تیار ہوا کرتے تھے اور شاید انہی لوہے کے ہتھیاروں کی تیاری کی جگہ کے حوالے سے اسے لوہاری گیٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اسی جگہ آج کل لاہور کا انتہائی بارونق بازار انارکلی ہے۔ وہ صاحب لوہاری کے اندر اس گلی میں رہتے تھے جہاں کبھی آج کے کھرب پتی جناب سعد رفیق رہتے تھے۔ محترم سعد رفیق کے گھر کے دروازے کے عین سامنے میرے مرحوم دوست میر صاحب کا گھر تھا۔خواجہ صاحب نے گھر کے اندر جانے کے لئے چند سیڑھیاں گلی ہی میں بنائی ہوئی تھیں ۔ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد دروازے کے آگے ایک چھوٹا سا چبوترا تھا۔ جس پر عام طور پر سعد رفیق کی والدہ ایک چوکی پر بیٹھی ہوتیں ۔ وہ ہماری بزرگ تھیں ہمارا ان سے پیار، محبت اور اخلاص کا رشتہ تھا۔ آتے جاتے سلام دعا ہوتی اور ہم ان کی دعائیں سمیٹ کر پاس سے گزرتے۔ اب نہ وہ شہر رہا نہ ویسے بزرگ۔ نہ وہ پرانے مکین۔ سعد رفیق سمیت ہر چیز کمرشل ہو گئی ہے، گھروں کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ہر گلی ، ہر محلے کے مکین زیادہ تر نئے ہیں اور ہر نئے مکین سے خلوص اور بھائی چارے کی بجائے کاروبار کی بساند آتی ہے۔
اعظم کلاتھ ماکیٹ بڑھتے بڑھتے ڈبی بازار تک پہنچ رہی ہے ۔ ہر طرف کمرشلائیزیشن کا دور دورہ ہے۔ ہماری آبائی حویلی اس کی نذر ہو چکی اب وہاں ایک مارکیٹ ہے۔حکومت نے پرانی ثقافت کی حفاظت کے لئے ایک اتھارٹی بھی بنائی ہے مگر اس نے خود کو ایک آدھ راستے تک محدود کیا ہوا ہے۔ باقی شہر میں کچھ ہو پولیس اور اتھارٹی کے نیک نام لوگ اپنا حصہ وصول کر کے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ عجیب عالم ہے کہ اوپر پرانی بوسیدہ عمارت اسی طرح کھڑی ہے اور اس کے نیچے جیک لگا کر چار پانچ منزلہ تہہ خانہ تعمیر ہو جاتا ہے۔ نہ پولیس روکتی ہے نہ اتھارٹی۔ عدالتیں کچھ چیزوں کی روک تھام کرتی ہیں مگر ماضی میں ان کے فیصلے بڑے ادھورے رہے۔ شاہ عالمی میں عرصہ دراز سے کچھ لیٹرین بنی ہوئی تھیں ۔ ایک با اثر سیاسی تاجر رہنما نے وہ جگہ کسی طرح الاٹ کروا لی اور پلازہ بنانا شروع کر دیا۔ ہائی کورٹ نے پلازے کی تعمیر روک دی ۔ یہ نہیں پوچھا کہ جگہ کس نے اور کیسے الاٹ کی۔ کوئی باز پرس ہوئی نہ وہ الاٹمنٹ منسوخ ہوئی۔ آج وہاں پلازہ نہیں مگر دکانیں بنی ہیں اور قبضہ کرنے والے لوگ کرایہ بھی وصول کر رہے ہیں اور عام آدمی ایک بنیادی سہولت سے محروم ہے۔