ایک زمانہ وہ تھا جب ہر گھر میں ٹی وی نہیں ہوتا
تھا، مگربہت جلد اور بہت کم عرصہ میں ٹی وی ہر گھر میں پہنچا۔تین دہائیوں
تک ایک ہی ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا،جس سے خبروں کے علاوہ
بڑے سبق آموز ڈرامے نشر ہوا کرتے تھے ، اخلاقیات اور قومی ثقافت کا خاص
خیال رکھا جاتا تھا،وقت گزرتا رہا ۔جنرل مشّرف کا دورِ اقتدار شروع ہوا ،
مزید ٹی وی چینلز کھل گئے،ٹی وی چینلز نے ایک مفید کاروبار کی شکل اختیار
کر لی، اخبارات کے مالکان نے ’’یک نہ شد ،دو شد ‘‘ کے مصداق دھڑا دھڑ ٹی وی
چینلز کھولے اگر پہلے وہ ایک ہاتھ سے کما رہے تھے تو دو ہاتھوں سے لوٹنے
لگے ۔ یوں ٹی وی چینلز کی تعداد بڑھتے بڑھتے پچیس تک پہنچ گئی۔مگر افسوس صد
افسوس کہ ایک طرف اگر ٹی وی چینلز کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف اس
کے معیار میں کمی آئی۔آج کل آپ کو ئی بھی ٹی وی چینل کھولیں تو آپ کو خبروں
میں سوائے اس کے کچھ نہیں مِلے گا کہ فواد چودھری نے یہ کہا ، فواد چودھری
نے وہ کہا، بِلاول بھٹو نے یہ کہا، فلاں نے یہ کہا فلاں نے وہ کہا، فلاں
عدالت میں پیش ہوا، نیب نے فلاں کی انکوئری شروع کر دی، فلاں کا ریمانڈ
حاصل کر لیا ۔کوئی یہ نہیں بتاتا کہ حکومت عوام کی بہتری کے لئے کیا کر رہی
ہے ، عوام تو ہر چھوٹی بڑی چیز پر ٹیکس دے رہی ہے۔، اخر یہ ٹیکس کہاں خرچ
ہو تا ہے ؟حکومت اور اپو زیشن کے درمیان بلیم گیم بریکینگ نیوز کے طور پر
دکھایا جاتا ہے سیاسی پارٹیوں کے زبانی پہلوانوں کو ٹاک شو میں بلا کر
تماشہ دکھایا جاتا ہے۔حالانکہ لوگ ان کی شکلیں دیکھ کر بیزار ہو چکے ہیں
مگر چینلز کا دانہ پانی چونکہ انہیں کے دم سے چل رہا ہے لہذا کوئی چاہے یا
نہ چاہے ،ٹی وی سکرین پر ان کی پلجھڑیاں روزانہ ضرور سننی پڑتی ہیں ۔اینکر
حضرات کی گل فشانیاں سنیں تو جانبداری کی بو صاف محسوس ہوتی ہے۔ٹاک شو رائے
عامہ کی مثبت سمت میں تشکیل کے لئے بڑا اہم رول ادا کر سکتے ہیں مگر افسوس
کہ ہمارے ہاں ٹاک شو رائے عامہ کی مثبت سوچ کی تشکیل کے بجائے ذہنی انتشار
کا باعث بنتا ہے کیونکہ ٹاک شو کے شرکاء عموما متحارب سیاسی پارٹیوں سے
تعلق رکھتے ہیں۔اور ٹاک شو کا سارا وقت ایک دوسرے پر الزام لگانے میں گزر
جاتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اینکرز حضرات کو سیاسی مرغے لڑانے کا
شوق ہے ۔کم عمر بچوں،بچیوں سے زیادتی کے واقعات پر نمک مصالحہ چھڑکا کر پیش
کیا جاتا ہے انٹر ٹینمنٹ چینلزجو ڈرامے دکھاتے ہیں ان میں گھریلو جھگڑے،بہو
ساس کے جھگڑے، محبت کی شادیاں اورٖفحاشی کے علاوہ کچھ نہیں دکھایا جاتا ۔
پچیس چینلز میں کوئی یہ نہیں بتا تاکہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ،انسانی
زندگی آسان بنانے کے لئے کیا کیا نئی چیزیں ایجاد ہو رہی ہیں ۔ شہری شعور
کتنا بیدار ہو چکا ہے، ہمارے ہاں اور دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کے درمیان
اخلاقیات کا کتنا بڑا فرق ہے، ہم اپنے دین سے کیوں اتنے دور ہو چکے ہیں۔؟
میڈیا کا کردار قوموں کے سنوارنے یا بگاڑنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا
ہے۔کسی بھی ملک کا میڈیا اس ملک ک معاشرے کا اصلاح کرتا ہے۔آج کے دور میں
میڈیا ایک طاقت بن چکا ہے،لیکن میڈیا کا غلط استعمال پوری قوم کو گمراہی کی
طرف لے جارہا ہے۔مسلمان تو پہلے ہی اپنی اعتقادی اور ایمانی کمزوری کے سبب
اور قرآن و سنّت کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالنے کے سبب دنیا میں اپنی اقدار
کھو چکے ہیں۔ہم نہ تو قران و سنت کے ما حول میں پلے بڑھے اور نہ ہماری نئی
نسل قران و سنت کی پاکیزہ تعلیمات پڑھ کر، دیکھ کر یا سن کر پنپ رہی ہے۔
بلکہ ٹی وی چینلز پر غیر مسلموں کے رواج، رہن سہن کے طریقے اور ان کے عادات
و اطوار دیکھ کر پل بڑھ رہی ہے جو کہ یقینا امّتِ مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ
ہے۔کسی بھی ملک میں جہاں جمہوری نظام رائج ہو ، وہاں میڈیا کی حیثیت ایک
ستون کی سی ہو تی وہاں میڈیا کی آزادی کو ایک دلیل سمجھاجاتا ہے مگر آزادی
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا بے جا استعمال کیا جائے یا اسے لوگوں کو گمراہ
کرنے،چٹپٹی خبروں کے ذریعے مزہ لینے یا کسی کی کردار کشی کے لئے استعمال
کیا جائے۔اس کا اصل مقصد حقائق کو عوام کے سامنے لانا ہونا چاہیئے ، فکری
راہنمائی ہونا چاہیئے اور تعمیری تنقید ہو نا چاہئیے۔الیکٹرانک میڈیا کو اب
روشن شمع کی مانند روشنی پھیلانے کا کام کرنا چاہیئے کیونکہ،
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا ۔یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
|