میں کون ہوں؟میری پہچان کس سے ہے؟شادی سے پہلے والد کے
نام کیساتھ,شادی کے بعد شوہر کے نام کے ساتھ,والد تو اپنے نام کی کوئی قیمت
نہیں لیتے جبکہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کسی اجنبی کے ہاتھوں سونپ دیتے ہیں,
اپنے وجود کا وہ حصہ ایک غیر کودے دیتے ہیں جو اُن کے آنگن میں رحمت کے
دروازے کھولتی ہے, یہ وہ ہے جسے ہمارے نبی کریم نے رحمت قرار دیا, فرمایا
بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھو, جب تک یہ رحمت اپنے والد کے گھر میں ہوتی ہے تب
تک ہی رحمت رہتی ہے شوہر کے گھر جاتے ہی زحمت کیوں بن جاتی ہے؟کیا صرف ایک
والد ہی بیٹیوں کی قدر جانتا ہے؟والد بھی ایک مرد ہے اور شوہر بھی ایک مرد
ہے پھر ایک عورت کو سمھجنے اور عزت دینے میں اتنا فرق کیوں ؟جب یہی مرد
والد کی جگہ پہ ہوتا ہے تو بیٹیوں کو اپنی محبت وشفقت کے ساتویں آسمان پر
بیٹھا دیتا ہے, اور جب وہی مرد شوہر کی جگہ لیتا ہے تو اُسی رحمت کو اپنے
پاؤں کی جوتی بنا دیتا ہے...
یہ کیسا ظلم ہے اس حوا کی بیٹی کیساتھ میرے خدا.. کہ جب وہ آنکھ کھولتی ہے
تو باپ کی شکل میں محبت وشفقت کا پیکر مرد اسکا اس دنیا میں استقبال کرتا
ہے, اسکے دل میں مرد کی ایک حسین تصویر کو نقش کردیتا ہے, اسکے خواب میں
آنے والا مرد اسے ایک شہزادہ سے کم نہیں لگتا, کیونکہ یہ خواب اسے اسکے
والد نے دکھائے ہوتے ہیں, وہ اسی گمان میں رہتی ہے کہ ہر مرد اسکے والد کی
طرح ہی ہوتا ہے,مگر اس بےوقوف کے خواب تو تب چکناچور ہوتے ہیں جب اُسی رحمت
پہ دن رات گالیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے, اسکے کانوں میں ہر سمت سے اسکی ماں کے
اور باپ کے نام کی گالیاں گونجتی رہتی ہیں, یہ شو ہر خود کو مجازی خدا کہتے
ہیں یہ جانتے بھی ہیں کہ خدا کبھی بھی اپنے بندے کو ہزاروں گناہ کے بعد بھی
معاف کر دیتا ہے, کبھی اپنے بندوں کو غلط سے بھی نہیں پکارتا وہ تو اپنے
بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے, اور یہ مقام بھی انکو اُس
خدا نے ہی دیا ہے, تو ان مجازی خداؤں کو نہیں پتہ کیا انکے اس رشتے کے آگے
اتنا بڑا رتبہ اپنی بیویوں کو بے عزت کرنے کے لئے دیا گیا ہے یا عزت دینے
کے لئے.....
یہ عجب کھیل ہے دنیا کا
جہاں عورت کو ہی کھیل سمجھتے ہیں لوگ
اپنی مرضی سے نچاتے بھی ہیں
پھر اُسی عورت کو بُرا بھی کہتے ہیں لوگ
اپنی ساری بھڑاس نکالنے کے باوجود بھی, دن رات اُسے گالیوں میں نہلانے کے
باوجود بھی, عورت کو ہی بےصبرا کہتے ہیں لوگ.....
|