حدیث شریف کا مفہوم ہے:”جو شخص
علم حاصل کرنے کے لیئے گھر سے نکلتا ہے اور سفر کرتا ہے اللہ تعالیٰ جنت کی
راہ آسان کر دیتا ہے فرشتے طالب علم کی رضامندی کے لیئے اس پر اپنے پروں کا
سایہ کر دیتے ہیں۔معلم کے لیئے ہر وہ چیز جو آسمانوں زمین میں ہے استغفار
کرتی ہے۔حتیٰ کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی اس کے لیئے مغفرت کی دعا کرتی
ہیں (ترمذی شریف)۔اس حدیث سے ہمارے دین میں علم کی افادیت و اہمیت کا روشن
پہلو اجاگر ہوتا ہے۔لیکن قیام پاکستان سے ہی تعلیمی نظام کی جانب کوئی خاطر
خواہ توجہ نہ دی گئی ۔جو ہماری فاش غلطی ثابت ہوئی۔اور اسکے منفی نتاتج سے
پوری قوم کو ہمکنار ہونا پڑا۔ مشہور مفکر بقراط کہتا ہے ”خامیوں کا احساس
کامیابیوں کی کنجی ہے“۔ ہر دور کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔جو اقوام یا
حکمران وقت کی بے رحم چابک سہنے سے قبل ہوش و حواس میں آ جائیں وہ ترقی کا
سالہا سال کا سفر مفر لمحوں میں طے کرلیتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے غربت زدہ
‘بے سہارا و مہنگائی کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے افراد کے
شانوں پر سوار بے حمیت آقاﺅں نے طوق لا علمی ان کی گردنوں کی زینت بنا رکھا
تھا۔ فقط کاغذی اعدادوشمار میں معیشت جھلکارے مارتی تھی ۔لیکن نادار و مفلس
طبقہ علم کی افادیت جانتے ہوئے بھی اس کے گونا گوں اخراجات سے گھبرا کر اسے
محض رئیسوں کا مشغلہ کہہ کر دل بہلاتا تھا۔ جدید تعلیم کے زیور سے اولاد کو
فیض یاب کرنا تو درکنار دو وقت کا کھانا ملنا ہی دشوار گزار تھا۔ایسے میں
دانش سکول سسٹم ایک ایسا قابل دید اقدام ہے جو سرمایہ کاروں‘جاگیرداروں‘پر
تعیش سیاستدانوں ‘وڈیروں اور بیش بہا زر رکھنے والوں کے نظریات کی یکسر
مخالفت کرتا ہے۔رحیم یار خان و حاصل پور میں پایہ تکمیل کو پہنچنے والے یہ
عالشان و دیدہ زیب سکول اس بات کی عین غمازی کرتے ہیں کہ چیتھڑوں میں لتھڑے
ہوئے‘بے کس ‘بے نوا و ستم رسیدہ بچے جن کے والدین امیروں کا اترن پہننے اور
ان کے بچے کھچے ٹکڑوں پر انحصار کرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے آج دانش سکول
کی شان و شوکت ہیں جس میں قارون کی وراثت پانے والوں کی آل کو ہمیشہ کے
واسطے بے دخلی کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا گیا ہے۔داخلے کے مسودے کے مطابق
اولاً ترجیح ان بچوں کو ملے گی جن کے والدین اس دارفانی سے کوچ کر گئے ہوں
۔پھر وہ بچے جن کے سر پر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو اور بیوہ ممتا کی گود
ان کا واحد آسرا و آشیانہ ہو۔اسکے بعد ان بچو ں کو اہمیت دی جائے گی جن کے
والدین علم جیسی نادر دولت سے نابلد ہوں۔اور زر و زمین جیسی آفات کی وراثت
سے محروم ہوں۔یا جن کے والدین کی کل آمدنی چھ ہزار سے کم ہو۔یا ان میں سے
کوئی ایک جسمانی طور پر معذور ہو۔ان شرائط و ضوابط کی روشنی میں کسی بھی
امیر طبقے کے سپوت کا داخلہ ممنوع ہے۔محض حسرت و یاس میں کڑھتے وہ بچے جو
ذہانت میں کسی رئیس زادے سے کم نہیں اس چمنستان کی زینت ہیں۔ایک بچے کے
دوران تعلیم کل اخراجات کا تخمینہ پندرہ ہزار ہے جو ادارہ برداشت کرے
گا۔طعام ‘وردی ‘کاپیاں کتابیں سب ادارے کے ذمہ ہوں گے۔علاج معالجے کی ذمہ
داری بھی ادارے پر ہوگی۔طعام و قیام کا خرچ بھی ادار ے کے خصوصی فنڈ میں سے
منہا کیا جائے گا۔داخلے سے قبل بچے کو تحریری امتحان اور اپنے سرپرست کے
ہمراہ انٹرویو کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔معلم حضرات کے لیئے کم از کم معیار
تعلیم متعلقہ مضمون میں ماسٹر ڈگری کا حامل ہونا ہے۔نیز دیدہ زیب کلاس
رومز‘الیکٹرانک بلیک بورڈ‘ڈائننگ ہال‘ایڈمن بلاکس‘اعلی تعمیری معیار کے
مطابق اساتذہ کی رہائش گاہیں‘بہترین لیب‘سپورٹس کے حسین گراﺅنڈ اور بہت سی
مثبت چیزیں اس سسٹم کی منہ بولتی شان وشوکت و نزاکت کی گواہی دے رہی
ہیں۔خدا کرے یہ تعلیمی نظام ہوس اقتدار کی زد میں نہ آئے۔ تعلیمی درسگاہیں
کسی کی ملکیت نہیں ہوتیں۔لیکن ارض وطن کی کوکھ میں فلاح وبہبود کے نجانے
کتنے منصوبے فقط اقتدار کی بھینٹ چڑھتے ہوئے معدوم ہوگئے۔اللہ تعالیٰ اس
سسٹم کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔ ایوان کی قومی مفاد میں مفاہمت پالیسی اس کے
لیئے سازگار ثابت ہو گی۔ طالب علم ہی وہ سرمایہ ہیں جنھوں نے آگے چل کر
اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔کرپٹ لوگو ں کا کڑا احتساب کر نا ہے۔فارسی
کا مصرعہ ہے
قلم گوید کہ من شاہ جہانم (ترجمہ :قلم نے کہا میں دنیا کا بادشاہ ہوں۔اس
بات میں رتی برابر بھی شائبہ نہیں ۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ”علم حاکم ہے اور
دولت محکوم“۔ لیکن اس نظام کے تحت قلم غرباءکے ہاتھ میں ہو گا تو انشااللہ
عدل کا بادشاہ ہو گا)
اگر یہ نظام کسی خواہش بیمار کا نشانہ نہ بنا تو انشاللہ ارض پاک کے لیئے
بہترین خادم ‘اعلیٰ دفاعی حصار اور بہترین کردار کے حامل افراد پیدا کرے
گا۔جس سے ملک بدامنی و انتشار کی فضا سے پاک ہو جائے گا۔ ۔ بل گیٹس کہتے
ہیں پاکستان کا تعلیمی نظام درست ہو جائے تو آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے
گا۔گو کہ ان کی اور ہماری نصابی ترجیحات میں فرق ہے ۔مگر بات دل کو لگتی
ہے۔شرح خواندگی و نظام تعلیم پر توجہ دینا ہو گی ۔قومی جریدے میں چھپنے
والے ایک سرکاری سروے کے مطابق پرائیویٹ سکولوں میں 27فیصد جبکہ سرکاری
سکولوں میں 71فیصد بچوں کی تعداد زیر تعلیم ہے۔سرکاری سکولوں پر بھی خاطر
خواہ توجہ دی جارہی ہے ۔لیکن حالات مزید توجہ کے متقاضی ہیں۔ایک قومی جریدے
کی رپورٹ کے مطابق 31فیصد سکولوں میں بنیادی ضروریات کا فقدان ہے۔
مبادا کے ایسے ہی سنجیدہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے بلاتامل بے تاب
فیض کہ اٹھا
اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
یہ رائے کہ ان سکولوں کہ اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جن کے زیادہ
بچے دانش سکول کے لیئے کوالیفائی کریں گے۔اس تجویز کے زیر اثر سرکاری
سکولوں کی سطح پر بھی تبدیلی آئے گی۔آخر میں تمام صاحب اختیار صاحبان سے
اپیل ہے کہ ان اشعار کو اپنا منشور بنا لیں وگرنہ دانش سے فارغ تحصیل بچے
خوب احتساب لیں گے ۔۔بقول جناب عطاءالحق قاسمی
خوشبوﺅں کا اک نگر آباد ہونا چاہیئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیئے
ان اندھیروں میں بھی منزل تلک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوﺅں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیئے
خواہشوں کو خوبصورت شکل دینے کے لیئے
خواہشوں کی قید سے آذاد ہونا چاہیئے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے
ریگستان میں گلستان کی بنیاد رکھی جا چکی ہے ۔تیس دانش سکولوں کی تعمیر کا
بے ہنگم خواب حقیقت میں ڈھلنے لگا ہے۔فی کس سکول کی مد میں کم و بیش تریسٹھ
کروڑ کی خطیر رقم خرچ ہوگی۔یقیناً اربوں کی کرپشن کرنے والوں ‘جمہوریت کے
مخالفوں اور حقائق سے عاری ضمیر فروشوں کے لیئے یہ فضول خرچی ہو گی۔کیونکہ
اس سے ان کے خادموں میں جرائت پیدا ہو گی۔ہم قائداعظم کا پاکستان بنانے چلے
ہیں ۔جس میں اب مستقبل کے واسطے سینکڑوں سالوں پر محیط پالیسیاں مرتب ہونے
لگیں ہیں۔صحافت کافی حد تک آزاد ہے۔تعلیم میں بے کسوں کی شمولیت ہونے لگی
ہے۔محمود و ایاز کی تفریق ختم ہونے چلی ہے۔تعلیم ہماری ترجیح بننے لگا
ہے۔اور صوبو ں کو بھی چاہیئے دانش یا اس سے ملتی جلتی کوئی تعلیمی نظام
متعارف کروائیں ۔اور وسیع تر قومی مفاد میں شامل ہو جائیں۔ ایک چینی کہاوت
ہے ”اگر آپ 1سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں تو آپ مکئی کاشت کریں‘اگر
آپ دس سال کی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں تو درخت لگائیں لیکن اگر آپ صدیوں پر
محیط منصوبہ بندی کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو آپ لوگو ں کو اچھی تربیت دیں“۔ |