سانحہ ساہیوال کے بعد

چند سال پہلے، تونس میں کسی سرکاری اہلکارنے طارق طیب محمد بن بوعزیزی نامی ایک شخص کی توہین کی، توہین کے بعد طارق طیب محمد بن بوعزیزی نے احتجاجا اپنے آپ کو آگ لگا لی،جس کے بعد عوام سڑکوں پر نکل آئے اور یوں زین العابدین بن علی کی تئیس سالہ آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

ظالموں سے چھٹکارے کے لئے کسی نہ کسی کو قربانی دینی ہی پڑتی ہے، تونس میں جس سرکاری شخص نے طارق طیب محمد بن بوعزیزی کی توہین کی تھی وہ فقط ایک شخص تھا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک شخص نے توہین کی ہے تو صرف اسے سزادی جائے اور باقی آمریت کوویسے ہی چلنے دیا جائے ۔چونکہ حکومت میں اچھے اور برے سب لوگ ہوتے ہیں لہذا ایک شخص کی وجہ سے ساری آمریت کا تختہ نہ الٹا جائے۔

ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے حالیہ ظلم کے بعد بعض احباب سی ٹی ڈی اور پولیس کے حق میں ایسی ہی دلیلیں گھڑ رہے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ سب پولیس والے تو برے نہیں ہوتے لہذا سیاست اور وردی کے گٹھ جوڑکی مخالفت نہیں ہونی چاہیے اور موجودہ آمریت کو یونہی برقرار رہناچاہیے۔ایسی باتیں کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں، ایک تو وہ ہیں جو سیاست اور وردی کےگٹھ جوڑ کو سمجھتے ہی نہیں اور دوسرے وہ ہیں جو ان دونوں کے آلہ کار ہیں۔

اب تک جے آئی ٹی ٹیم نے 5 عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، لائق صد ستائش ہیں وہ عینی شاہدین جنہوں نے اپنی جان کو ہتھیلی پررکھ کر بیانات ریکارڈ کروائے ہیں۔عینی شاہدین نے دعوی کیا ہےکہ پولیس کی جانب سے پہلے فائرنگ کی گئی تھی اور حادثے میں جاں بحق افراد کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی ۔ایک عینی شاہد کے مطابق پولیس نے گاڑی سے فائرنگ شروع کی تھی جس کے نتیجے میں بچوں کی والدہ کو گولی لگی اور وہ اپنے بچوں پر گرگئی ۔بعد ازاں پولیس نے بچوں کو گاڑی سے باہر نکال کر دوبارہ فائرنگ شروع کردی۔خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اعجاز حسین کی سربراہی میں حادثے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔گزشتہ روز جے آئی ٹی کی ٹیم نے جائے وقوع کا معائنہ کیا اور لوگوں سے پوچھ گچھ کی تھی، اس موقع پر ٹیم میں لاہور اور ساہیوال پولیس کے اراکین شامل تھے۔

ایسی تحقیقات کےبعد زیادہ سے زیادہ ایک دو پولیس والوں کوبرطرف کر دیاجائےگایا برطرفی کے ہمراہ کچھ مزید سزا سنا دی جائے گی جبکہ وردی کی آمریت جوں کی توں برقرار رہےگی۔اس واقعے کے اصلی محرکات کومنظر عام پر نہیں لایاجائے گا اور یہ کیس اپنے مقتولین کے ہمراہ یونہی دفن ہوجائے گا۔

بعض تجزیہ کار اس واقعے کے اہم محرک کے طور پر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کوبھی دیکھتے ہیں۔بہر حال بطورِ عوام ہمیں اپنے دفاع اور بچاو کےلئے سانحہ ساہیوال کے بعد کچھ اہم نکات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:
۱۔ مساجد کومحور بنایا جائے
ان مسائل کا پہلا حل یہ ہے کہ عوام تنگ نظر اور ان پڑھ مولویوں سے مساجد کو پاک کریں اور دینی مدارس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ علمائے کرام کو مساجد کی زینت بنائیں اور اپنے روز مرہ مسائل کو استعمار کے بنائے ہوئے تھانے اور کچہریوں کے بجائے علمائے کرام کے پاس لے جائیں اور ان سے اپنےمقدمات کے فیصلے کروائیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ فیصلہ کرتے وقت علمائے کرام سے بھی غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی پر صبر کیجئے اور عنداللہ روز قیامت اجر کی امید پیدا کیجئے چونکہ رشوت خور اور بھتہ خور لوگوں کو رقم کھلانے سے بہتر ہے کہ آپ وہ رقم معاشرے کے یتیم ، مساکین و فقرا پر خرچ کریں اور اپنے رب سے فضل و کرم کی امید رکھیں۔

اسی طرح اپنے دیرینہ مقدمات اور جھگڑوں پر نظر ثانی کریں، علمائے دین سے مشورہ کریں اگر آپ نے اپنی انا اور ہٹ دھرمی کے باعث کسی پر ناحق مقدمہ قائم کیا تھا تو رضائے پروردگار کی خاطر اپنامقدمہ واپس لےلیجئے اس سے معاشرے میں اخوت و رواداری جنم لے گی، اور اگر کسی نے ناحق آپ کے اوپر مقدمہ قائم کر رکھا ہے تومفت خور وکلا کے بجائے متقی، متبحر اور تجربہ کار علمائے کرام کے ذریعےاپنے مخالفین سے رابطہ کیجئے اور مقدمے کے خاتمے کے لئے کوشش کیجئے۔

اپنےتمام تر جھگڑوں کو تھانوں اور کچہریوں کےبجائے مساجد میں علمائے کرام کے سامنےپیش کریں اور فقہی و اسلامی قوانین کی روشنی میں اپنے حق میں فیصلہ کروائیں خواہ وہ فیصلہ آپ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

۲۔ رزق حلال کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے
اپنے خاندان میں رزقِ حلال کو اہمیت دیں، اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے پیسے کی جمع آوری کے بجائے رزقِ حلال کو فوقیت دیں، اس شعور کو فروغ دیں کہ آمدنی بے شک کم ہو لیکن حلال ہو۔ایسے شعبوں میں خود بھی بھرتی نہ ہوں اور اپنے عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی بھرتی ہونے سے منع کریں جہاں حرام کی آمدن اور دنیاو آخرت کی لعنت کا امکان ہو۔اگر ہم اپنے معاشرے کو رزقِ حلال پر قانع کر دیں تو حرام خوروں کے اقتدار اور شر سے جان چھوٹ جائے گی۔

ہمیں ایسے دستر خوان پر نہیں بیٹھنا چاہیے جس پر لقمہ حرام کی موجودگی کا شائبہ ہو اور ایسے لوگوں سے رشتے ناتے نہیں کرنے چاہیے جو حرام کی کمائی کھاتے ہوں۔

۳۔ تعلیم و تربیت پر توجہ
اگرچہ ہمارے ہاں یکساں نظامِ تعلیم نافذ نہیں تاہم ہمیں اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں داخل کروانا چاہیے کہ جہاں تعلیم کے ہمراہ دینی تربیت کا بھی اہتمام ہو، تاکہ ہمارا بچہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہذب، بااخلاق، مودب اور بااصول انسان بھی ہو۔ وہ لوگوں کی جیبوں پر نظر رکھنے کے بجائے ان کے مسائل کے حل کے لئے بے قرار رہتا ہو۔اس کے دل کو پیسے دیکھ کر سکون ملنے کے بجائے یاد خدا سے سکون ملتاہو۔ایساایک جامع نظامِ تعلیم کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

۴۔گھریلو ماحول میں دینداری
ہمیں اپنے گھریلو ماحول کو بھی مسجد محور بنانا چاہیے، پیسے کی پرستش کے بجائے ، خدائے واحد کی عبادت و پرستش ہمارامعمول ہونی چاہیے اور احکامات الٰہی کو جاننا اور ان پر عمل کرنا ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے۔تلاوت قرآن مجید، باقاعدہ نماز جماعت، روزے اور حج کو ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے اور گھر میں بھی ہم سب پر واضح ہونا چاہیے کہ حرام کمائی والی شخص کی کوئی عبادت قابل قبول نہیں۔

۵۔ دینی تعلیم کا رجحان
جب معاشرے میں ظلم و جور، وحشت و بربریت اور لوٹ مار و حرام خوری کا دور دورہ ہے تو اس کی ایک اہم وجہ لوگوں کی دینی تعلیم سے نا آشنائی بھی ہے۔ ہمیں دینی مدارس سے مربوط ہوناچاہے اور اپنے ذہین و فتین بچوں کو دینی تعلیم کے لئے وقف کرنا چاہیے۔اسی طرح دینی مدارس کے سربراہوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی ایجنسیوں اور اداروں کی چالوں میں نہ آئیں جو بچوں کو مصلحین کے بجائے دہشت گرد بنا تے ہیں۔

۶۔معاشرتی تبدیلیوں سے لاتعلق نہ ہوں
ہم اس ملک کے باسی ہیں اور اس قوم کا حصہ ہیں، ہمیں کسی بھی صورت میں معاشرتی تبدیلیوں سےالگ تھلگ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں ان لوگوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے جو قوم کے نونہالوں کو دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں اور یا پھر سرکاری وردی پہن کر بے گناہ سول لوگوں کو قتل کرکے لوگوں کو باغی بننے پر مجبور کرتے ہیں۔

۷۔ ظلم کو برداشت نہ کریں
جس طرح ظلم کرنا برا فعل ہے، اسی طرح ظلم کو برداشت کرنا، ظالم کی مدد کرنا، ظلام کی حمایت کرنا، ظالم کے ظلم پر پردہ ڈالنا اور ظلم کو ہوتے دیکھ کر اس کے لئے بہانے اور جواز ڈھونڈنا یہ بھی گناہ اور قبیح فعل ہے۔ لہذا اگر کہیں پر ظلم کو ہوتا دیکھیں، کسی کو رشوت مانگتے یا کھاتے دیکھیں ، یا آپ کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائےتو اس پر خاموش ہونے کے بجائے واویلا کریں اور کم از کم علمائے کرام اور کسی پریس کلب تک اپنی آواز پہنچائیں۔

۸۔ ۵ فروری یوم یکجہتی مظلومین
۵ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے بجائے یوم یکجہتی مظلومین کے نام سے منایا جائے، دنیا میں جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے اسے منظر عام پر لایا جائے اور مظلومین کی حمایت کی جائے۔ خصوصا بین الاقوامی برادری سے یہ اپیل کی جائے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف پاکستان میں سی ٹی ڈی کے جرائم کی باقاعدہ تحقیق کرے اور لاپتہ لوگوں کو بازیاب کروائے۔

ہمیں سابقہ تاریخ (لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح،بے نظیر بھٹو، علامہ عارف حسینی، ضیاالدین رضوی۔۔۔) کی روشنی میں ابھی سے یہ معلوم ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد کچھ بھی نہیں ہونے والا، سوائے اس کے کہ زیادہ سے زیادہ چند پولیس والوں کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا جبکہ سی ٹی ڈی کی آمریت جوں کی توں باقی رہے گی، سول لوگ حسبِ سابق لاپتہ ہوتے رہیں گے اور مختلف عنوانات سے ان کی کھال کھینچی جاتی رہے گی۔لہذا ہمیں اس سامراجی و آمرانہ نظام سے چھٹکارے کے لئے بیک زباں ہوکر ۵ فروری کو احتجاج کرنا چاہیے اور مکمل طور پر دینِ اسلام کی آغوش میں پناہ لینی چاہیے۔ بے شک دینِ اسلام ہی ہمارا اصلی محافظ ہے۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.