محمدفاروق قریشی صاحب مفتی محمود اکیڈمی کے ڈائریکٹر
ہیں۔جب میں ان کے مضامین روزنامہ جنگ اور اسلام میں پڑھا کرتا تو ان سے
ملنے کی حسرت ہوتی۔ براردم عنایت شمسی نے کہا کہ ان سے ملاقات طے ہے تو
خوشی کی انتہاء ہوئی۔ روزنامہ اسلام کی آفس میں صاحب طرز قلم کار
مولانا شفیع چترالی صاحب سے مختصر گفتگو کے بعد ان کے طرف چلنے کے لیے
اٹھ کھڑے ہوئےتو شمسی جی نے کہا کہ حقانی ؔ،ہم پہلے قطب الدین عابد ؔکے
ہاں کھانے پر مدعو ہیں وہاں سے ان کی معیت میں قریشی صاحب سے ملیں گے۔
یوں ہم قطب الدین عابد کے ادارے جا پہنچے۔ انہوں نے ایک بہترین ضیافت
کا اہتمام کیا تھا ۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ پکے ’’فضل الرحمانی‘‘
ہیں لیکن فکر و نظر میں اختلاف کرنے والوں کو ثواب کی نیت سے گالی نہیں
دیتے۔دلیل سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ قطب عابد کے ساتھ مباحثہ کی
داستانیں کافی لمبی ہے۔ کئی دفعہ ان کو غصہ دلانے اور گالیاں کھانے کی
بھرپور کوشش کی لیکن ہر دفعہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ہی کارکن
سیاسی جماعتوں کے اصل اثاثہ ہوتے ہیں۔قطب جی نے ابوالکلام آزاد کے نام
سے ایک لائبیریری بھی قائم کی ہوئی ہے۔ میں کہوں تو قطب جی فضل الرحمان
صاحب کی طرح آزاد صاحب کے بھی بے دام اور بے لوث غلام ہیں۔غلام کے
معنی عربی والا لیا جائے۔قطب جی کی دعوت بریانی اڑانے کے بعد،وہاں سے
مفتی محموداکیڈمی چل دیے ۔ قریشی صاحب نے کہا کہ میں نے آپ حضرت کی
انتظار میں کھانا بھی نہیں کھا یا لیکن۔۔۔ہماری ان سے باقاعدہ گفتگو کا
آغاز ہوا۔برادرم شمسی جی اور عابدؔ خاموشی سے سنتے رہے اور میں قریشی
صاحب کی خدمت میں نان سٹاپ بولتا رہا۔ قریشی صاحب واقعی ایک صائب فکر
اور جہاندیدہ انسان ہیں۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ جے یو آئی میں بھی
ایسے سنجیدہ اور جدید دنیا سے واقفیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔اپنے
مطالعاتی دورے کے کچھ پوشیدہ پہلوں قریشی صاحب کے سامنے بھی شد و مد کے
ساتھ رکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ چیزیں تو ہمیں بھی معلوم نہیں۔حیرت کا
اظہار بھی کیا۔ خیر۔ پڑھنے لکھنے اور لکھنے لکھانے کے اور جدید دور کے
تقاضوں کے مطابق کس طرح کام کیا جانا چاہیے جیسے اہم موضوعات پر فاروق
قریشی صاحب سے اپنے خیالات شیئر کیے تو انہوں نے سرسید اور غامدی کی
اولاد کہنے کے بجائےسنجیدگی سے سنا اور دل سے سراہا اور بہت سارے مفید
مشورے بھی دیے۔ بہر صورت زندگی رہی تو ان سے ہونے والی گفتگو تفصیل سے
لکھیں گئے تاہم یہ بتانا ضروری سمجھتا کہ قریشی صاحب نےڈبل ایم اے کے
ساتھ ایل ایل ایم بھی امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا ہے اور لکھنے
لکھانے سے خصوصی شغف رکھتے ہیں۔اور نیک نیتی سے اپنے تصنیفی کام کیے
جارہے ہیں ہاں مگر یہ سوال سوال ہی رہے گا کہ دینی مدارس اور جماعتوں
میں قریشی صاحب جیسے لوگوں کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔؟عنات شمسی نے
ہمارے لیے ایک دن وقف کیا تھا، ان کے ساتھ کراچی کے مختلف ایریاز میں
گھوم پھر کر بہت لطف اٹھایا۔شمسی جی کا تعلق چترال سے ہیں۔ بہترین اردو
لکھتے ہیں۔ اور بولتے بھی کمال کے ہیں۔ روزنامہ اسلام کے ادارتی صفحے
کے ساتھ نیوز ایڈیٹر بھی ہیں۔بہت حساس طبیعت کے مالک ہیں۔ ہر ایک کے
ساتھ گھل مل نہیں سکتے لیکن جن کے ساتھ دوستانہ اختیار کرتے ہیں ان کے
لیے دل جان بھی نچھاور کیے دیتے ہیں۔ اور پھر محبت کے تقاضے پورے بھی
کرتے ہیں۔میرے ساتھ اپنی شمسی توانائیوں کا سلسلہ شد و مد کے ساتھ جاری
رکھے ہوئے ہیں۔اور میں نے بھی ٹھان لیا ہے کہ شمسی جی کی گرائی ہوئی
شمسی توانائیوں سے صرف لطف اندوز ہی ہونگا نہ کہ منہ چڑھاوں۔اب شمسی جی
کچھ بھی کرے مگر میں ان کی گرائی ہوئی شمسی توانائیوں کو انجوائی کرتا
رہونگا۔
۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
21،01،2017
|