انیس جنوری دو ہزار انیس ملکی تاریخ کا سیاہ دن۔ کیوں ؟
کیسے ؟ میڈیا نے ہر شخص کو باخبر رکھا ہوا ہے۔سوشل میڈیا نے بھی، الیکٹرانک
میڈیا نے بھی اور اب تو ہر چیز پرنٹ میڈیا میں بھی چھپ چکی ہے اور اس حوالے
سے با خبر رکھنے کے ساتھ اب پرنٹ میڈیا نے بھی اپنے پڑھنے والوں کو سب کچھ
بتا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے جہاں نقصانات ہیں وہاں اس کے فوائد بھی ہیں اور
اب کی بار تو سوشل میڈیا نے کمال ہی کر دیا۔ ساہیوال میں پیش آنے والے اس
واقعے کی فوٹیج پیچھے سے آنے والی بس میں بیٹھے ایک شخص نے بنا لی۔ اچھا
کیا، بلکہ بہت اچھا کیاورنہ کیا ہونا تھا دہشت گرد تو وہ قرار دیے جا ہی
چکے تھے اور اگر ویڈیو نہ بنتی تو صاحب بہادر کی جان چھوٹ جانی تھی۔ ایسا
کیوں ہوا ؟کسی کو کچھ پتہ نہیں سی ٹی ڈی والے جانتے ہیں یا نیلی چھتری والا
وہ خدا جانتا ہے جو غفورالرحیم ہے۔
واقعہ کیا ہے ؟ جانیے جی۔ جو نہیں جانتے وہ بھی جانیے ہوا یوں کہ ساہیوال
میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور ان بچوں کے والد کے دوست اور ان
بچوں کی بڑی بہن جسے وہ آپی کہتے تھے بے دردی سے فائرنگ کر کے مار دیا گیا۔
یعنی پولیس نے جو عام افراد کی حفاظت کرتی ہے اس نے چار افرادکی جان لے لی۔
ایک بچہ زخمی ہوا اور زخمی ہونے والے بچے سمیت اسکی دو معصوم بہنیں یتیم
ہوگئیں۔ یعنی کے ہوا یوں کہ ان بچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی اور صدمے سے بچوں کی
دادی اماں کو بھی ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ بات پھر وہی ایسا کیوں ہوا اﷲ جانے۔
قسمت کا مارا وہ خاندان شادی میں شرکت کرنے کے لیے چونگی امرسدھو لاہور سے
بورے والا جارہا تھا۔ اب ان بچوں کا کیا ہوگا اﷲ جانے۔ وہ اپنی باقی زندگی
کیسے گزاریں گے اف خدایا۔اب وہ ساری زندگی بس یہی کہتے رہیں گے کہ
یہ خوف مجھے گھر سے نکلنے نہیں دے گا
اس شہر میں تو پھرتا ہے آزاد وہ قاتل
اور میرے خیال میں اعتبار میں یہ پولیس گردی ہے جو پتہ نہیں کب بند ہوگی۔
میرے پاس اس درندگی پر اد ا کرنے والے الفاظ موجود نہیں اب کہیں یہ نہ ہو
کہ
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
اب جو مرضی ہوجائے ملکی تاریخ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ ساہیوال میں معصوم
بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بہن کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا۔
اﷲ ؟؟؟ قیامت خیز منظر ہے ان بچوں کے لیے جن کے ماں باپ ان کے سامنے مارے
گیے۔ ناانصافی کرنے والوں کو اﷲ پوچھے گا۔ آمین۔
اب پھر اس پولیس کا کیا جائے گا کچھ نہیں۔ آپ نے تو حکومت ملنے کے بعد
پنجاب میں سب سے پہلا کام پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنا تھا ۔ آپ نے درانی صاحب
کو بلایا وہ بھی آگیے۔ آنے کے بعد پھر کدھر گیے ؟ کیوں گیے ؟ کچھ پتا نہیں۔
اب پھر جناب کیا کیا جائے اس پولیس کا جو اپنے بیانات بدلتی رہی ہے۔ اب بھی
کچھ ایسا ہی ہوا واقعے کے بعد کہا گیا کہ وہ افراد جو مارے گیے وہ بچوں کو
اغواء کر کے لے جارہے تھے مگر کیا ہوا اس بچے کے بیان نے پولیس کے اسی بیان
کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ اور پھر ہلاک ہونے والوں کا تعلق دہشت گرد جماعت داعش
سے جوڑا گیااور کہا گیا کہ سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے
اغواء میں بھی یہ لوگ ملوث رہے ہیں اور پھر واقعے کی ابتدائی رپورٹ آئی جسے
انتظامیہ سمیت سب نے مسترد کر دیا۔ اب پولیس سے ہمارا یعنی ساری عوام کا یہ
سوال تو بنتا ہے نہ کہ
تو ادھر ادھر کیا نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
ہم کسووال پریس کلب کے صحافی یہ واقعہ ہونے کہ بعد چیچہ وطنی پریس کلب
رجسٹرڈ میں معروف کالم نگار اور نجی اخبار کے ایڈیٹر جناب حیدر جاوید سید
صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ حیدر جاوید سید صاحب بھی لاہور سے آرہے تھے
اور انھیں بھی راستے میں یہ سب کچھ ہوتا نظرآرہا تھا انکی طرف سے بھی واقعے
کی شدید مذمت کی گئی ۔ اب جناب ایک کام اچھا ہوا پنجاب پولیس کے تمام
آفیسرز جن میں آئی پنجاب امجد جاوید سلیمی صاحب بھی شامل تھے ساہیوال پہنچ
گیے۔ پھر جناب وزیراعلیٰ پنجاب جناب سردار عثمان بزدار صاحب بھی میاں والی
سے عمران خان کے کہنے پر ساہیوال آگیے اور ورثاء کو مکمل تعاون کی یقین
دہانی کروائی گئی اور انکی طرف سے کہا گیا کہ اگر پولیس اہلکاروں پر کوئی
بات ثابت ہوگئی تو انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اب جناب عمران خان
صاحب کو یہ بتانا ہے کہ ہم سب جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں ۔
جے آئی ٹی کے سربراہ ذلفقار چیمہ صاحب کو بنایا گیا ہے انکی قابلیت پر بھی
کسی کو کوئی شک نہیں مگر پھر بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ باقی ساری بات تو جے
آئی ٹی کی رپوٹ کے بعد ہی ہوگی کہ آیا جے آئی ٹی کی رپورٹ ٹھیک ہے یا ماضی
کی طرح سب کچھ ہوگا۔ اب جناب عمران خان پر کوئی تنقید نہیں کر رہااوراگر
خان صاحب نے حکومت ہوتے ہوئے بھی اگر کچھ نہ کیا تو ہم سب یہ کہنے پر مجبور
ہوجائیں کہ کی ہویا اے کج نہیں ہویا ، کی ہونا اے کج نہیں ہونا۔ |