محکمہ تعلیم معاشرے کی ماں کی مانندہے جس سے تمام ادارے
جنم لیتے ہیں۔ جس معاشرے میں اس ماں کو احترام سے دیکھا جائے اس کے بچے بھی
اپنی عملی زندگی میں دوسروں کو عزت و احترام سے دیکھتے ہیں۔ وہی معاشرہ امن
و ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے جس میں احترام آدمیت و انسانیت پایا
جائے جو معاشرہ احترام آدمیت کھو بیٹھے وہاں دوسروں کی تذلیل، استحصال اور
بد دیانتی معاشرے کی قدریں بن کر انسانوں کو ایک دوسرے کادشمن بنا کر
معاشرے کا امن و چین تباہ و برباد کر دیتی ہیں اور بد امن معاشرے کبھی ترقی
نہیں کر سکتے۔ ہمارا گھر ہماری پہلی تربیت گا ہ ہے اور تعلیمی ادارے ہماری
دوسری تربیت گا ہ ہیں جس کے اثرات ہماری ساری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کی کار کردگی بہتر بنانے کے لیے اعلی اوصاف کے مالک ایسے
افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے اس عظیم منصب کا ادراک رکتھے
ہوں اور معاشرے کا بھی فرض ہے کہ وہ علم حاصل کرنے والوں کا احترام کریں۔
اساتذہ کو بھی چائیے کہ وہ بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کریں تاکہ وہ
عملی زندگی میں معاشرے کو خو شحال بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں لیکن
جہاں اساتذہ ہر وقت سیاسی و نفسیاتی دباؤ اور خوف میں مبتلا رہیں وہاں وہ
کسی بھی طرح بچوں کے اندر خود اعتماد ی کی قوت پیدا نہیں کر سکتے۔ ہمارے
معاشرے میں اس وقت اساتذہ کی اکثریت بے جا خوف و خطرے بے چینی اور بے یقینی
میں مبتلا رہتی ہے ۔ آئیے جائزہ لیں کہ ایسا کیوں ہے اور اسکا حل کیا ہے؟
سیاست میں ایسے لوگ ہونا چائیے جو انسانوں کو انسانیت کی اتنی بلندیوں پر
لے جا ئیں کہ وہ معاشرے میں انصاف و امن پیدا کر کے اسے ترقی کی راہ پر ڈال
سکیں ۔ آجکل ہمارا معاشرہ جس قسم کے سیاستدان پیدا کرتا ہے یا لوگ
سیاستدانوں کے بارے کیا موقف رکھتے ہیں اسکا اندازہ یونیورسٹی کے ایک طالب
علم کو کیے جانے والے ایک سوال کے جواب سے لگائیے ۔ میں مظفرآباد اپنے ایک
رشتہ دار جج صاحب کے گھر انکا انتظار کر رہا تھا جہاں انکا بھانجا میرے
دوست کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا ۔ میرے دوست نے اس طالب علم سے پوچھا کہ
اس کے کتنے ماموں ہیں تو اس نے کہا کہ اسکے تین ماموں میں جن میں سے ایک جج
ہیں دوسرے پولیس انسپکٹر اور تیسرے پڑھ نہیں سکے لہذا وہ سیاست میں چلے گے
ہیں۔ پہلے تو اسکی بات سن کر سب ہنس پڑے لیکن بات تو وہ ٹھیک ہی کر رہا
تھاکہ سکولوں سے بھاگے ہوئے لوگ یا جو کسی سرکاری ادارے میں ایڈجسٹ نہیں ہو
سکے وہ سیاسی پارٹیوں میں جا کر سیاسی ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ جو بھی پارٹی
اقتدار میں آتی ہے وہ سب سے پہلے ان سیاسی ٹھیکیداروں کی ایما پر تعلیمی
اداروں کی اکھاڑ پچھاڑ کرتی ہے۔ انکا پہلا کام سرکاری ملازمین کے جبری
تبادلے ہوتا ہے اور پھر گاؤں برادری میں جس کسی کے ساتھ ناراضگی ہو اسے سبق
سکھانا ہوتا ہے۔ ان سیاسی ٹھیکداروں کو نہ تو ادارے چلانے کا کوئی تجربہ
ہوتا ہے اور نہ ہی ان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت ہوتی ہے ان کے زہن میں صرف
یہ ہوتاہے کہ آیا اپنے مخالفین کو کیسے سبق سکھایا جائے اس نفرت کا شکار سب
سے پہلے اپنے مخالفین کے رشتہ دار اساتذہ ہوتے ہیں۔ این ٹی ایس کا نظام آنے
کے باوجود تعلیمی اداروں کی بھرتیوں میں وزیروں کی مداخلت جاری ہے جسکی ایک
تازہ مثال بلوچ کی سحرش سلطان ہے جس نے مظفرآباد اسمبلی کے سامنے احتجاج
کیا کہ اس کے حلقہ کے ایم ایل اے نے اپنے من پسند امیدوار کو مخصوس نمبر دے
کر میرٹ لسٹ پر آگے کر دیا۔ سحرش سلطان اور اس کے بزرگ والد نے اسمبلی کے
سامنے پر امن احتجاج کیا تو پولیس نے جانوروں کی طرح انہیں سڑکوں پر گھسیٹا۔
نوکریاں دینا اداروں کا کام ہوتا ہے اور ہر محکمہ خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ
آیا کون سا امیدوار مشتہر اسامی کے لیے موزوں ترین ہے جبکہ رکن اسمبلی جسکا
کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے اسکی کوشش ہوتی ہے کہ میرٹ کو پس پشٹ ڈال کر
صرف اپنے ووٹر کو نوازا جائے جسکی وجہ سے اداروں کے اندر باصلاحیت افراد کے
بجائے تابعدار قسم کے لوگ جمع ہو جاتے ہیں جو کسی سیاستدان کے تو شاید کام
آ جائیں لیکن ملک و ملت اور متعلقہ ادارے کے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ دوران
ملازمت زندگی بھر ان کے اندر خود اعتمادی کی قوت پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ
ہمیشہ انکے دماغ میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ انہیں نوکری اپنی صلاحیت
نہیں بلکہ ایم ایل اے کی سفارش پر ملی ہے۔
اکثر ممالک میں نجی تعلیمی اداروں کو تعلیم اور معلمین کے لحاظ سے سرکاری
اداروں سے بہتر تصور کیا جاتا ہے اور ان معلمین کی تنخوائیں بھی سرکاری
ملازمین سے زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے نسبت نجی
تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کی تعداد میں تو دن بدن اضافہ ہوتا جا
رہا ہے لیکن باقی کوئی بہتری نظر نہیں آتی بلکہ ہر ادارے کا اپنا نصاب اور
اپنا شیڈول ہے جسکی وجہ سے معاشرے کے اندر غریب امیر کے درمیان فرق بڑھتا
ہی جا رہا ہے اور ایسامعاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا ۔ جس ملک کا نظام
تعلیم لوگوں کو تقسیم کر رہا ہو اسے بائر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی
کیونکہ اس کے اپنے لوگ ایک دوسرے کے دشمن بن کر معاشرتی جڑیں کھوکھلی کر
دیتے ہیں۔ ہمارے نجی تعلیمی اداروں میں بے شک سٹاف کی اکثریت تعلیم یافتہ
ہے لیکن وہ غیر مستقل اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں اس کے باوجود بچے نجی
تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں جسکی بڑی وجہ نجی تعلیمی اداروں کا ماحول
اور چہل پہل ہے جس سے کچے ذہن اور موثر تعلیمی نظام سے بے خبر والدین متاثر
ہو کر نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں اگر سرکاری اداروں کے لیے حکومت
خصوصی فنڈ مختص کر کے کھیل کود اور بزم ادب کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے
ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارت اور انکی سہولیات پر توجہ دے تو
ان میں اچھی کشش پیدا ہو سکتی ہے سرکاری تعلیمی اداروں کے سٹاف کے نسبت نجی
تعلیمی اداروں کے سٹاف کا مستقبل غیر یقینی ہوتا ہے کیونکہ وہ کم تنخواؤں
کی وجہ سے عارضی ہوتے ہیں اور عارضی لوگ اپنے مستقبل کی فکر میں بچوں کو
تسلی بخش تعلیم نہیں دے سکتے اور نہ ہی وہ بچوں کی زہنی نشو نما اور کردار
سازی کر سکتے ہیں جنکا اپنا کوئی مستقبل نہ ہو وہ دوسروں کا مستقبل سنوانے
میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اس کے علاوہ سرکاری تعلمی اداروں کے اسا تذہ
کرام کا ایک اور اشو جو میرے مشاہدے میں آیا ہے وہ ہے ضلعی سرکاری افسران
کے دفتروں کی کلرک شاہی جو اساتذہ کو ہراساں رکھنے کے نت نئے طریقے ایجاد
کرتے رہتے ہیں جسکی وجہ سے اساتذہ ہر وقت تناؤ کا شکار رہتے ہیں اکثر اسا
تذہ اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر انہوں نے سیاسی ٹھیکیداروں اور کلرک
شاہی کے آگے سر اٹھایا یا تو انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ یہاں
دفتر شاہی کی ذیادتیوں کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن میرا مقصد کسی کو
مجرم ثابت کرنا نہیں بلکہ اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر ہم چاہتے
ہیں کہ ہمارے معاشرے میں پر اعتماد اورصحت مندانہ سوچ کی مالک نسل پیدا ہو
جو ملک و قوم کو بہتری کی طرف لے جائے تو پھر ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو
بہتر اوراساتذہ کا احترام و اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ جو اساتذہ اپنے پیشے
سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں انہیں بھی اپنے رویوں پرنظرثانی کی
ضرورت ہے اور حکومت کو بھی چائیے کہ اساتذہ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے
کے لیے انکی کونسلنگ کے ساتھ ساتھ انہیں تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ بھی سکول
کے بچوں کے اندر خود اعتمادی کی قوت پیدا کر سکیں۔ سرکاری اداروں کے اندربے
شک دیانتدار اور باکردار افسران بھی موجود ہیں لیکن وہ اقلیت میں ہیں ۔
وقتی طور پر تو شاید وہ کسی کا کام کر دیں لیکن جب تک ادارے درست نہ ہوں تب
تک ہر ایک کو انصاف ملنا مشکل ہے اس لیے اداروں کی اصلاح ضروری ہے جس میں
حکومت اور اصلاحی سوچ و فکر رکھنے والے ہر فرد کو کردار ادا کرنا چائیے۔
|