مدینہ جیسی ریاست میں جنگل کا قانون

تحریر : روشن آراء کراچی
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہورہے ہیں ہم ہی قتل کررہے ہیں
سنا ہے جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے ․․․․․․․․․سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے ․․․․․․تو وہ اور کچھ نہیں کھاتا ․․․․․․!!!!

یہ تو تھا خیال معروف شاعرہ زہرہ نگاہ کا ،مگر انسان وہ معاشرتی حیوان ہے جس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا شاید اسی بناء پر یہ انسانی معاشرہ جنگل سے بھی بدتر ہوچکا ہے ،جہاں انسان کے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے مدینہ جیسی ریاست میں انسانیت سسک رہی ہے مقام افسوس یہ ہی نہیں ہے بلکہ مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں جی جناب وطن عزیز پاکستان میں جہاں سب چلتا ہے کا دور دورہ ہے یہاں قانون اور انصاف عرصہ دراز سے گمشدہ ہے اور اس متاع گمشدہ کی تلاش ہنوز جاری و ساری ہے جناب علی ؑکا قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام کسی طور نہیں چل سکتا․
ہم ہی ظالم اور ہم ہی مظلوم ہیں
ہم کہ جو انصاف سے محروم ہیں

محکمہ پولیس کے کاہائے نمایا سے کماحقہ ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے اب یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بدعنوانی ،رشوت ستانی اور جرائم کے فروغ میں محکمہ پولیس اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا مگر متعلقہ محکمے کے افسران وارباب اختیار بسا اوقات چشم پوشی کرتے دیکھائی دیتے ہیں ․اگر نقیب اﷲ کے مجرم راؤ انوار جیسے ضمیر فروش قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں بر وقت دی جاتیں ،تو آئے روز اس قسم کے درد ناک واقعات ہرگز جنم نہیں لیتے اور یوں آج مقتول خلیل کے گھر میں صفحے ماتم نہ بچھی ہوتی ،اہل خانہ سینہ کابی نہ کررہے ہوتے ،یوں ہر آنکھ اشک بار نہ ہوتی ․جن ریاستوں میں راؤ انوار جیسے قاتلوں کی عزت ہوتی ہے وہاں جنگل کا قانون رائج ہوجاتاہے ،وہاں انسان اور انسانیت قتل کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دی جاتی ہے․
وہ حادثہ جو ابھی سر سے گذرا ہے
دیکھئے کب شعور سے گذرے

سانحہ ساہیوال پر چشم فلک نمناک ہے فضاء سوگوار اور پوری قوم غمزدہ ہے یہ سانحہ ۱۹ جنوری ہفتے کی صبح ساہیوال کے علاقے اڈہ قادر آباد پر رونما ہوا تھا کہ جہاں ایک شریف خاندان بورے والا میں ہونے والی اپنے عزیز کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے لاہور سے روانہ ہوئے کون جانتا تھا کہ خوشیوں کی جانب رواں دواں یہ سفر ساہیوال پہنچ کر سفر آخرت میں تبدیل ہوجائے گا کہ اچانک سی ٹی ڈی کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں چار نہتے شریف شہریوں کو اندھا دھند فائرنگ کرکے موت کی گھاٹ اتار دیا جائے گا،آن واحد میں ہنستا بستا گھرانہ لہو لہان ہوکر ہمیشہ کے لیے ویران ہوجائے گا اس سانحہ میں ڈرائیور ذیشان کو دس گولیاں،والد خلیل کو تیرہ گولیاں،والدہ نبیلہ بی بی کو چار گولیاں اور تیرہ سالہ بہن اریبہ کو چھ گولیاں مارتے ہوئے انسانیت کو پوری طرح کچل دیا گیا ،پھر بھی شرم ان کو مگر نہیں آتی کہ مقتولین پر وحشیانہ انداز سے فائرنگ کرنے کے بعد گاڑی کی ڈگی سے سامان کے تھیلے نکالے جس میں کپڑوں کے علاوہ نقدی اور زیور بھی موجود تھا ظلم کی اس المناک داستان کے بعد لوٹ مار کیا یہ سی ٹی ڈی اہلکار کسی بھی طور انسان کہلوانے کے لائق ہیں ؟؟ایک لمحے کے لیے بھی ان کے ہاتھ نہیں کانپے خوف خدا سے دل نہیں لرزا معصوم بچوں کو دیکھ ان کا دل نہیں تڑپا ،یاخدا زمین شق کیوں نہ ہوئی آسمان کا کلیجہ کیوں نہ پھٹا یہ منظر دیکھ کر افففففف․․․․․بات یہاں ختم نہیں ہوتی کتنی ہی آنکھوں کے سامنے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے سفاکانہ تاریخ رقم کی ․
قتل ہوتے ہیں سبھی کے سامنے
اور قاتل ہیں کہ نامعلوم ہیں

اور اس پر ستم بالائے ستم سانحہ ساہیوال کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ایف آئی آر ان کاؤنٹر کرنے والے اہلکاروں کے خلاف درج کی جاتی جو اس سفاکیت میں ملوث تھے ․وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا جو خواب دیکھایا تھا وہ خواب چکناچور ہوگیا محترم عمران خان صاحب حضرت عمر فاروقؓ کا قول بہت ذکر کرتے ہیں کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی مرا تو ذمہ دار عمر ہوگا عمران خان صاحب یہ دریائے فرات کے کنارے مرنے والاکتا نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے شریف شہری تھے ،جن کا خون پانی کی طرح بہادیا گیا اور اس صدمے کی تاب نہ لاکر ماں بھی تمہاری مدینہ جیسی ریاست سے کوئی گلہ شکوہ کیے بنا خاموشی سے منہ موڑ گئی گویا یہ محض چار لوگوں کا جنازہ نہیں بلکہ پانچ لاشے ہیں جوزمین کے سپرد کیے گئے ہیں․محکمہ پولیس کبھی تحفظ کی ضمانت تھا مگر اب یہی ادارہ عوام کے لیے خوف کی علامت بن کر رہ گیا ہے کبھی کسی افتاد کے وقت لوگ سوچتے تھے کہ پولیس کو بلاؤ مگر اب کہتے ہیں کہ پولیس سے بچاؤ ،جس کے ذمہ دار ارباب اختیار ہیں کہ جنہوں نے پولیس کے محکمے پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا اور پولیس اہلکار بد مست ہاتھی کی طرح معصوم شہریوں پر چڑھ دوڑتے ہیں جیسے چاہتے ہیں اپنے اختیارات تلے روندتے چلے جاتے ہیں اور حکومتی اراکین ،وزراء،سیاستدان محض مذمت کے بیانات دے کر خانہ پری کردیتے ہیں اور پھر رات گئی بات گئی کے مصداق فائیلیں بند اور پھر کسی نئے حادثے تک گہرا سکوت تاری ہوجاتا ہے جو کسی بڑے حادثے کے بعد ٹوٹتا ہے․مگر کہتے ہیں نہ کہ جہاں سے ہماری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے اس پاک ذات کی قدرت شروع ہوجاتی ہے جو بہترین انصاف کرنے والا ہے اور خون اپنی گواہی خود دیتا ہے سانحہ ساہیوال کے مقتولین کا لہو بھی پکار پکار کر اپنے قاتلوں کی نشاندہی کررہاہے بہت ہوگیا اب بس کرو ․․․پاکستان میں اب جنگل کا قانون نہیں چلے گا مدینہ جیسی ریاست میں جان کا بدلہ جان اور خون کا بدلہ خون ہوگا․وزیراعظم عمران خان کنٹینر پر چڑھ کر بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے کہ عوام کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ہم متلاشی ہیں اس عمران خان کے جو مظلوم پر ظلم کیئے جانے پر آواز بلند کرتا تھا اور انصاف دلانے کی بھرپور کوشش کرتا تھا․محض اہلکاروں کو حراست میں لینا کافی نہیں ہے اس کے پیچھے چھپے ان بڑے مگرمچوں کو بے نقاب کیا جائے جن کے حکم اور ایماں پر یہ آگ و خون کا گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے ،ہمارے ساتھ ساتھ پوری قوم سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں مگر حکومت وقت اور ارباب اختیار سے سوال ہے قتل کیوں ہوتے تھے ؟؟؟قتل کیوں ہورہے ہیں ؟؟؟اور آخر بے گناہ افراد کب تک قانون اور انصاف کے نام پر قتل ہوتے رہیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟
اٹھئے !غریب شہر کا لاشہ اٹھائیے․․․․․․․․․․․․اٹھتی نہیں یہ خاک خدارا اٹھائیے
دفناکے ایک لاش بہت مطمئن ہیں آپ ․․․․․․․اک اور آگئی ہے دوبارہ اٹھائیے

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 73030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.