علم ہوکہ حکم، رویہ یا معاملہ جب اس کو فطرت کے اصول
کے خلاف استعمال کیا جائے گا تو ظلم کہلائے گا۔اور مظلوم وہ ہوتا ہے جس
کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جاٗے جو اس کا نہ ہو۔ انفرادی زندگی
میں ظلم کا نتیجہ بیماری، معذوری اور خود کشی کی صورت میں برآمد ہوتا
ہے ۔ خاندانوں میں ظلم نفرت، ناچاکی اور طلاق کا سبب بنتا ہے اور
معاشروں میں جھوٹ، فریب، ڈاکہ ، دہاندلی اور قبضوں کا چن چڑہاتا ہے۔
ریاستی سطح پر بے اعتمادی، بد گمانی ، لوٹ کھسوٹ اور رشوت کو تقویت
دیتا ہے۔
معاشرے کی مثال ایک دریا کی مانند ہوتی ہے جو اپنے فطری راستوں اور
رفتار سے بہتا ہے۔ بہتے دریاو ں میں مخصوص موسموں میں طغیانی آنا بھی
فطری عمل ہے البتہ بہتا دریا اچانک خشک ہو جائے تو یہ عمل فطری شمار ہو
گا۔ پاکستان میں بہتے دریا خشک ہو گئے مگر ظلم یہ ہواکہ کسی جہاندیدہ
بزرگ نے لاٹھی پکڑ کر پہاڑ پر نہ چڑہنا ہی گوارا نہ کیا۔
پاکستان کے عسکری ادارے کے ایک سربراہ نے اپنے ادارے اور حلف کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو ادارے کے اندر سے کسی نے
مزاحمت کی نہ کسی نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ وہ ملک جو
بناتے وقت لاکھوں جانوں کی بلی دی گئی تھی ۔ اس کے دو لخت ہونے پر نہ
کسی کی غلطی کی نشان دہی کی گئی نہ کسی پر مقدمہ چلا۔کیا اس کو ظلم کے
علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟
ملک کی بنیاد رکھنے والوں نے صاف الفاط اور واضح لہجے میں بتایا تھا کہ
یہ ایسا ملک ہوگا جہان تمام لوگوں کو امن میسر ہو گا۔ انگریز سے آزادی
کا مطلب تھاشہریوں کو ریاست کے لیے قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے تحفظ
مہیا کیا جائے گا۔ سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے گا۔ انسان کی
تکریم کی مثال قائم کی جائے گی تاکہ دوسرے ملکوں کو اس نظام کو اپنے
ہاں نافذ کرنے کی حرص پیدا ہو۔ ظلم یہ ہوا کہ عملی طور پر ہم نے ایسا
ملک بنایا جہاں انسانی جان بے وقعت ہو کر رہ گئی۔ ریاست عوام دوست کا
کردار ادا کرنے کی میں ناکام ہی نہیں ہوئی بلکہ عوام دشمنی کو اپنی
کامیابی گرداننے لگی۔اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے ہی
شہریوں کو اپنی ہی سرزمین سے پکڑ کر دشمن کو فروخت کرے اور باقی ماندہ
لوگوں کو ظلمتوں میں دھکیل کر بیرون ملک جا بسے اور ریاست چپ سادھ لے۔
ملک کی سب سے اونچی عدالت کے سب سے بڑے منصف کی عدالت میں منصف کے
روبرو ایک شخص منصف پر رشوت مانگنے کا الزام لگائے ،الزام کی تردید ہو
نہ عدالت کی توہین کا مقدمہ قائم کیا جائے نہ اس شخص کو پاگل خانے
بھیجا جائے ۔ عدالتوں میں مقدما ت پر ریلیف دینے کی روائت تو کسی کتاب
میں پڑہی نہ اخباروں مین دیکھی مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل
درجنوں ملکوں سے بہتر ہے ۔ ایسی خود فریبی کو ظلم کے علاوہ دوسرا کیا
نام دیا جائے۔
اللہ کا طریقہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو پیشانی سے قابو کرتا ہے مگر
ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے وہ مخالفین کو کرپشن کے نام پر پکڑتی ہیں۔
کرپشن وہ غبارہ ہے جس میں بے بنیاد پروپیگنڈے کی ہوا بھر کر اس کو
پھلایا جاتا ہے اور عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ کرپشن سے بھرا
ہوا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ جو معاشرہ سول حکومت کے دوران کرپٹ ہوتا ہے
۔ کسی آمر کے آتے ہی حاجی اور پرہیز گار ہو جاتا ہے مگر جوں سول حکومت
قدم رنجہ ہوتی ہے یہ شیطان اسی لمحے مخالفین پر اپنا جال پھینک کر
انھیں کرپٹ بنا دیتا ہے۔ یہ جو اہل دانش کا فرما ن ہے کہ ظلم کا معاشرہ
قائم نہیں رہ سکتا ۔ ان کو کوئی جا کر خبر کرے ۔آو اپنی آنکھوں سے دیکھ
لو ہم نے ظلم کے غبارے میں اپنے جبر سے ہوا بھر کے اسے قائم بھی
رکھاہوا ہے۔
کرپشن وہ اندھا کنواں ہے جس میں بار بار ڈول ڈالا جاتا ہے ۔ پہلے لوگ
ڈول ڈالنے کے اس تماشے کو اشتیاق سے دیکھتے تھے۔ مگرہر بار اور بار بار
یہ ڈول بے مراد ہی واپس آیا ہے۔ اب عوام بھی جان چکی ہے اس اندھے کنویں
میں امید کا گمان بھی نہیں ہے ۔ جبر مگر یہ ہے کہ یہ ظالم ڈول ڈالنے
والوں کے لیے خالی نہیں ٓتا۔اور یہی سب سے بڑا ظلم ہے ۔ |