علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا کہـ! "فرشتوں سے بہتر ہے
انسان بننا"انسان ہوکر انسان بننا سب سے مشکل کام ہے انسان روزاول سے زمانے
کو اپنے ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہے مگر دنیا میں بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں
جو معاشرے میں بکھرے ہوئے احساسات ،تفکرات ،محورات کو اکٹھا کرپاتے ہیں
اورپھر دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں یقینا ایسے افراد
زمانے کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کا فن رکھتے ہیں۔ برادرم عزیر رفیق اور جنید
الرحمن بھائی کو ملنے کے بعد اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ابھی دنیا میں
انسانیت کا درد رکھنے والے موجود ہیں جو رحمت کائنات،مسیحا انسانیت جناب
محمدؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا کرتے ہوئے بلا امیتاز رنگ ونسل ومذہب انسانیت
کی فلاح وبہود کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔ جن کا مقصد حیات رضائے الٰہی کے لیے
انسانیت کی خدمت ہے ۔قرآن کریم میں اﷲ رب العزت کا ارشاد پاک ہے "جس شخص نے
ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا "اﷲ تعالیٰ نے
اس انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب پرفائز کرکے دنیا کی ہر چیز انسان کے
لیے مسخر کردی اور اس کی حرمت بیت اﷲ سے زیادہ قرار دیدی ۔نبی کریم ؐ کا
فرمان کریم ہے کہ"افضل ترین صدقہ کسی بیمار اور بھوکے کو پیٹ بھر کھانا
کھلانا ہے"نبی رحمتؐنے جو جنگیں لڑیں ان کا مقصد مال غنیمت یا کشور کشائی
نہیں تھا بلکہ غریبوں کو انکے حقوق دلانا اور غلامی سے آزادی تھی۔اﷲ تعالیٰ
قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں "پس اے مسلمانوں !اتفاق فی الخیر میں بخل
مت کیا کرو،بلکہ قرابت داروں کو ان کا حق دیا کرواسی طرح مسکین اور مسافرکو
بھی (انکے حقوق دیا کرو)یہ ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے
طالب ہیں ،ایسے لوگ فلاح پانے والے ہیں "(سورۃالروم آیت 38)سورۃ الماعون کا
آسان ترجمہ :کیا تم نے اسے نہیں دیکھا جو دین اسلام یا قیامت کے دن کی
جزاوسزاکو جھٹلاتا ہے؟وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو
کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا "حقوق العباد یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن
سلوک کے حوالے سے متعدد آیات اورسینکڑوں احادیث موجود ہیں یہ کہنا ہزگز غلط
نہ ہوگا کہ اسلام انسانی حقوق کا علمبردار مذہب ہے ۔رحمت کائنات جناب محمدؐ
یتیموں کے ساتھ بڑی ہمدردی فرماتے۔اس لیے صحابہ اکرام ؓ کو یتیموں کی کفالت
کرنے پر اکسایا کرتے ۔ایک مرتبہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : میںؐ اور یتیم کی
کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ،آپؐ نے قربت بیان کرنے کے
لیے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا ،یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا
حضورؐ کے ساتھ جنت میں ہوگا (بخاری)حاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب
وتعلیم میں مذہب اسلام کا کوئی ثانی نہیں :شریعت اسلامیہ میں مساکین
وغریبوں کو کھانا کھلانے اور انکی دنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بار بار
ترغیب وتعلیم دی گئی ہے ۔فرمان مصطفیؐ ہے :جو شخص مومن کی کوئی دنیاوی مشکل
دور کرے گا اﷲ تعالیٰ قیامت کی سختیوں میں سے اس پرسے ایک سختی دور کرے
گا۔اورجو شخص کسی تنگ دست پر سہولت کرے گا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد
میں لگا رہتا ہے اﷲ تعالیٰ اسکی مدد میں رہتا ہے۔(صحیح مسلم )المحمدیہ روضہ
سوسائٹی کے مسؤل جنید احمن بھائی اورصدر عزیر رفیق ایک بہت بڑا کام کر رہے
ہیں جن پر انکو جتنا بھی سراہا جائے جتنی بھی خراج تحسین پیش کی جائے کم ہے
۔"ننھے مددگار"کے نام سے بچوں کی ایک ٹیم تیار کی ہے ۔جس کی افتتاحی تقریب
نے مردہ ضمیر کو اندر سے جھنجوڑکررکھ دیا ـ"ننھے مددگاروں "کی ایک ایسی
چاقوچوبندجماعت تیار کی ہے کہ جن کو دیکھ کر یہ احساس ہونے لگا کہ فرشتے تو
زمین پر بھی رہتے ہیں ۔بچوں کے اندر جذبہ ایثار پیدا کرکے انکی یہ تربیت
کرنا کہ "ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے ۔ آتے ہیں جو کام دوسروں کے"وہ بھی اس
دور میں جہاں انسانیت آخری سانسیں لے رہی ہے یقینا بہت بڑاکام ہے ۔برادرم
عزیر رفیق ایک متحرک ،باکردار،بااخلاق جذبہ قربانی سے لبریز نوجوان ہے جنید
الرحمن بھائی کے لیے تعریفی کلمات سورج کو چراغ کہنے کے مترادف ہیں یقینا
بہت بڑی شخصیت کے حامل انسان ہیں ۔ننھے مدد گار کی افتتاحی تقریب میں
سینکڑوں مستحق بچوں،بچیوں میں ونٹر گفٹ گرم ٹوپی،جرسی،جرابیں،سٹیشنری کا
سامان اور کتابیں تقسیم کیں گئیں اور یہ سلسلہ پورے پاکستان میں جاری ہے ۔یہ
ننھے مددگار "ہومیرا کام غریبوں کی حمایت کرنا ۔دردمندوں ضعیفوں سے محبت
کرنا ،پر عملی طور پر عمل کر رہے ہیں ۔معذرت کے ساتھ مجھے یہ کسی طور پر یہ
ننھے مددگارنہیں بلکہ بہت بڑی قد آور شخصیات لگ رہیں تھیں اتنی بڑی کہ جن
کے عزم ،اخوت،محبت اور جذبہ ایثار کے سامنے وقت کے بڑے بڑے معتبراور معزز
بونے لگ رہے تھے سوچتا ہوں کہ یہ جو بچے رگوں میں خون کو منجمد کردینے والی
سردی میں گلی محلوں کے اندر گرم انڈے اور دیگر چیزیں فروخت کرکے رزق حلال
کماتے ہیں یہ اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں انکی خوداری کو سلام پیش کرتا ہوں
افسوس کہ ریاست اپنی ذمہ داری بھول چکی ہے اور ہم اپنے فرائض ۔روٹی،کپڑا،مکان،تعلیم
اور صحت جیسی بنیادی سہولیات دینا بذمہ ریاست ہوتا ہے آج پاکستان میں مزدور
بچوں کی تعداد ایک کروڑہوچکی چائلڈ لیبر کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا
رہا ہے "جدید غلاموں "کی تعداد کے سے لحاظ پاکستان دنیا کے تیسرے نمبر پر
ہے ۔پاکستان میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے ان بچوں کی
عمریں پانچ سے سولہ سال کے درمیان ہیں ۔ آخر ریاست اپنی ذمہ داری سے غافل
کیوں ہے ؟کیا اچھا ماحول تعلیم ان بچوں کا حق نہیں؟افسوس کہ اس ملک کو
اشرافیہ نے اپنے در کا غلام سمجھ رکھا ہے ۔یہ لوگ پاکستان کی ترقی کی راہ
میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔یہ نہیں چاہتے کہ غریب کا بچہ تعلیم اور قابلیت
کی بنیاد پر غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہو۔آئیے
اپنے حصہ کا ایک اچھا عمل کریں رحمت دوعالم ؐکے فرامین پر عمل پیرا کرتے
ہوئے دوسروں کی مدد کریں یتیموں او رمسکینوں کر سرپر دست شفقت رکھیں ۔ان
ننھے مددگاروں سے سیکھیں کہ کسی کی مدد کرکے جو سکون قلب ملتا ہے وہ محلات
میں کہاں میسر ؟میں ان ننھے فرشتوں کی ماؤں کو بالخصوص خراج عقیدت پیش کرتا
ہوں جنہوں نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی ہے کیونکہ انسان کی پہلی درس گاہ
اسکی ماں کی گود ہوتی ہے اور آخر میں جنید الرحمن اورعزیر رفیق بھائی کو
ایک بار پھر سلام پیش کرتا ہوں اور بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں جو
فلاح انسانیت کا مشن لیے وطن عزیز کے کونے کونے تک جارہے ہیں ۔اﷲ تعالی
انکی مساعی جمیلہ قبول فرمائیں آمین ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔۔
|