تحریر: رقیہ فاروقی
راہ حیات میں ہر شخص اس بات کا متمنی ہے کہ اس کی زندگی خوب صورت ہو۔ تمام
خواہشات پوری ہو جائیں۔ ایک دم سب کچھ رنگین دکھنے لگے۔ غم اور اداسی کے
سائے زندگی سے بہت دور چلے جائیں۔ پھر خوشیوں کا ایسا جہان آباد ہو کہ جہاں
زوال کا شائبہ بھی نہ آئے۔ یہ سب خواہشات اپنی جگہ درست ہیں۔ اس لیے کہ پر
سکون رہنے کی تمنا اگرچہ باعث عار نہیں ہے۔ یہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے
لیکن خوب صورت زندگی کے حصول کے لیے راستے کا چناؤ غلط ہے۔ ہر طبقے کا اپنا
انداز ہے۔ بے روزگار سمجھتا ہے کہ زندگی کی تمام رونقیں مال سے ہیں، جہاں
مال ہاتھ آگیا وہیں تمام پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگر کوئی اولاد کی
نعمت سے محروم ہے وہ اولاد کا مل جانا کامل زندگی کا سندیسہ سمجھنے لگا ہے۔
الغرض ہر انسان نے زندگی کے رنگوں کو حاصل کرنے اور بے کیف زندگی سے نجات
پانے کے لیے ایک تعبیر متعین کر لی ہے۔ پھر ساری کوششیں اسی محور کے گرد
گھومتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اصل سے بے خبر ہیں۔ اﷲ پاک نے انسان کو بڑی شان سے
نواز کر پیدا کیا۔ ابتدائے آفرینش سے مسجود ملائک بنا دیا۔ ہر دور میں
پیغمبر بھیج کر اصلاح کا سامان کر دیا، راہنماء کے لیے کتب سماویہ نازل
فرما دیں، ان کا پیغام ہی ہمارے لیے اصل ہے۔ ہم اگر قرآن سے پوچھیں کہ
زندگی خوبصورت کیسے بنے گی؟ اس کے لیے کیا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا؟ تو
بہترین اور کامل جواب ملتا ہے۔ارشاد ہوتا ہے کہ، ’’جو کوئی نیک عمل کرے گا،
چاہے مرد ہو یا عورت ہم اس کو پاکیزہ (خوب صورت زندگی) عطا فرمائیں گے۔کیا
ہم نے اس نسخے پر عمل کیا جو خوب صورت زندگی کی اساس ہے۔ جو حیات طیبہ کے
حصول میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ختم کرنے والا ہے۔
نہیں بالکل نہیں۔ اسباب کے پجاری آج کے انسان نے یقین کے زاویوں کو بدل کر
کائنات کو اپنے اوپر حاوی کر لیا ہے وگرنہ جب انسان اپنی اصل پر باقی تھا۔
تو دنیا کی ہر مخلوق اس کی فرمانبردار تھی۔حتی کہ وحشی جانور بھی دست بستہ
غلام نظر آتے۔ اب ان کی باتیں تو کجا! اپنے بطن سے جنم لینے والی اولاد بھی
ذریعہ آزمائش ہے۔اگر کوئی اپنی زندگی کو خوبصورت بنانا چاہتا ہے۔ تو اسے
ظاہر سے باطن میں جھانکنا ہوگا۔ دنیا کے عارضی نفع سے ہٹ کر آخرت کے دائمی
منافع کا سودا کرنا ہوگا۔ جو خزانے سے بھرا صندوق نبی محترم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ہمارے حوالے کیا ہے۔ اس کی درست چابی کا استعمال کر کے اپنے آپ کو
اس کا مستحق بنانا ہوگا۔
اعمال کے خزانے ہماری دسترس میں ہیں۔ لوٹنے کا موقع بھی خوب ہے۔ گرمیوں کی
لمبی دوپہریں ہوں یا سردیوں کے مختصر ایام، ہر ایک اپنے جلو میں خزینے
پنہاں کیے ہوئے ہے لیکن ایسی سدا بہار روح کی ضرورت ہے۔ جو ان سے کسب فیض
حاصل کر سکے۔ پھر سے مصلے سجدوں کی خوشبو سے معطر ہوں اور جنوری کی ٹھنڈی
شامیں افطار کے مناظر سے لطف اندوز ہوں۔شریعت مطہرہ میں سرما کے روزوں کو
غنیمت باردہ کہا گیا ہے یعنی ایسا مال غنیمت جو بغیر جنگ کے حاصل ہو۔ کتنی
آسانی کے ساتھ ہم اپنے دامن کو نیکیوں سے بھر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ان اعمال
کی قدرو قیمت کا پتا کرنا ضروری ہے۔ جب فضائل کا علم ہو گا تو عمل میں لانا
آسان ہوگا۔
فی زمانہ اس کو سمجھنا انتہائی آسان ہے کہ برانڈ کے نام سے کپڑے کی قدرو
قیمت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے مبارک فرامین کی روشنی میں یہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر عمل کس
قدر قیمتی ہے۔ایک مرتبہ سبحان اﷲ کہنا کتنا عظیم عمل ہے۔ لاالہ الا اﷲ کا
کلمہ نجات کی کنجی ہے۔ استغفار کا پڑھنا رحمتوں کا ضامن ہے۔ نہ جانے کتنے
مختصر اعمال ہماری زندگی کی رونقوں کی بحالی کے ضامن ہیں اور راہ نجات
ہے۔ہمیں چاہیے کہ قرآن کریم کے نسخے پر عمل کرتے ہوئے اعمال صالحہ کا
اہتمام کریں تاکہ مالک کون ومکان ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع عطا
فرما دیں۔ |