ایک عظیم مسیحا

معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اور دکھی دلوں کا مداوا بننے والی اس عظیم اور تاریخ ساز شخصیت سے ہماری نوجوان نسل شائد اس طرح سے شناسا نہیں جس قدر ان کی خدمات ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کے علاج، دیکھ بھال اور بحالی کی ایسی بنیاد رکھی کہ اب بھی ان کا قائم کردہ ادارہ ملک میں بے مثال خدمات سرانجام دے رہا ہے۔انہوں نے 1964 میں پاکستان میں فاؤنٹین ہاوس کے منصوبہ پر کام کا آغاز کیا جبکہ اس وقت ابھی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی فاؤنٹین ہاوس موجود نہیں تھے۔سویڈن جیسے ترقی یافتہ، صحت اور سماجی بہبود کی بہترین سہولتوں کے حامل ملک میں بھی فاؤنٹین ہاؤس 1970 کے بعد کہیں جا کر بننا شروع ہوئے۔ دکھی انسانیت کے لئے بے مثال خدمات سرانجام دینے والی یہ شخصیت ڈاکٹر رشید چوہدری کی ہے۔ وہ 2006 میں اس فانی دنیا سے رخصت توہوئے لیکن دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ مخلوق خدا سے محبت اور اس کی مشکلات کم کرنے اور کمزوروں کا سہارا بننے کا جو درس انہوں نے دیا ہے اسے ان کے بھانجوں ڈاکٹر افضل جاوید اور ڈاکٹر امجد ثاقب نہ صرف جاری رکھا ہے بلکہ اسے مزید آگے بڑھایا ہے ہے اور خدمت خلق کے لئے دن رات سرگرم عمل ہیں۔ ڈاکٹر افضل جاوید برطانیہ میں مقیم ہیں۔ وہ ذہنی امراض کے عالمی شہرت یافتہ معالج،محقق اور ورلڈ سائیکاٹری ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ دنیا کی صف اول کی میڈیکل یونیورسٹیاں انہیں ذہنی امراض پر تحقیقی لیکچر دینے کے لئے مدعو کرتی ہیں لیکن وہ فاؤنٹین ہاؤس کو نہیں بھولے اور اس کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کو دنیا جانتی ہے جنوں نے اخوت فاؤنڈیشن کی مدد سے لاکھوں لوگوں کو برسر روزگار کیا ہے اور اب اخوت یونیورسٹی کے ذریعہ اعلی تعلیم کے دروازے ان ذہین طلبہ پر بھی کھول دیئے ہیں جن کے والدین مالی دشواریوں کے باعث ایسا نہیں کرسکتے۔ اخوت جیسی عظیم تحریک کی قیادت کے ساتھ وہ ڈاکٹر رشید چوہدری کے قائم کردہ ادارے فاؤنٹین ہاؤس لاہور کے بھی سربراہ ہیں اور انہی کی محنت سے ایک اور فاؤنٹین ہاؤس قائم ہوچکا ہے۔ دونوں بھائیوں ڈاکٹر افضل جاوید اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی انسانی خدمت کے بے مثال جذبہ کے پس منظر میں ڈاکٹر رشید چوہدری کی تربیت اور فیضان ہے۔

ڈاکٹر رشید چوہدری بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں بھلے وال گوجراں میں ستمبر 1924ء میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت ذہین طالب علم تھے اور انہوں نے عملی زندگی کے لئے طب کے شعبہ کا انتخاب کیا۔ 1944سے 1949 تک وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے اور طلبہ یونین کے صدر بھی رہے۔ یہ حصول پاکستان کا دور تھا اور انہوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے مختلف عہدوں پر کام کیا جن میں پاک فوج کی میڈیکل کور، گلگت اور استور میں تعیناتی شامل ہے۔ معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اور ذہنی امراض کے شکار مریضوں کے علاج اور بحالی کا جذبہ ان میں بدرجہ اتم موجود تھا جس نے انہیں اس شعبہ کی طرف مائل کردیا۔ وہ 1960 سے 1966 تک وہ مینٹل ہسپتال لاہور کے میڈکل سپرنٹنڈنٹ رہے۔ اس دوران وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ وہ پاکستان کے پہلے پروفیسر آف سائیکائٹری تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ تشریف لے گئے اور وہاں سے فاؤنٹین ہاؤس کا تصور لے کر پاکستان لوٹے تاکہ ایک ایسا ادارہ بنا سکیں جہاں ذہنی مریضوں کا علاج اور بحالی ممکن ہو۔ 1964 میں انہوں نے فاؤنٹین ہاؤس کا آغازاپر مال لاہور میں ایک کوٹھی سے کیا۔ ذہنی امراض کے شکار لوگوں کی فلاح و بہبود کا یہ ایک نیا تصور تھا۔ فونٹین ہاؤس لاہور جسے لوگ پاگل خانہ کے نام سے جانتے ہیں، ڈاکٹر رشید چوہدری کا ایسا کارنامہ ہے جو ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ بعد ازاں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ملک معراج خالدنے فاؤنٹین ہاؤس لاہور کی موجودہ پرشکوہ عمارت ڈاکٹر رشید چوہدری کے حوالے کی۔ ڈاکٹر رشید چوہدری کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں 1969 میں تمغہ قائد اعظم اور 1985 میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ ڈاکٹر رشید چوہدری دوسرے سماجی اور فلاحی کاموں میں بھر پور حصہ لیتے رہے اور ایک مدت تک وہ مرکزی انجمن گوجراں پاکستان کے صدر بھی رہے۔

ڈاکٹر رشید چوہدری 2006 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے صاحبزادے پروفیسر ڈاکٹر ہارون رشید نے فاؤنٹین ہاؤس کی ذمہ داری سنبھالی لیکن موت نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ 52 برس کی عمر میں اس دنیا سے چلے گئے۔ ان کے بعد یہ فریضہ ڈاکٹر امجد ثاقب بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس مشن نہ صرف خوش اسلوبی سے آگے بڑھایا بلکہ انہیں کی کوششوں سے ایک اور فاؤنٹین ہاؤس فاروق آباد ، سرگودھا میں بھی قائم ہو چکا ہے ۔ اس دوسرے فاؤنٹین ہاوس کی اراضی کے حصول کے لئے جنرل ضیاء الحق، جنرل سوار خان اور شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رشید چوہدری کا مشن کامیابی سے جاری ہے اور ان کے فیض سے لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ 13 اگست 2006 کی شام کو ڈاکٹر رشید چوہدری نے جشن آزادی کے ایک پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنا تھی۔ پروگرام میں شرکت سے قبل وہ تھوڑی دیر آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن بیدار نہ ہوسکے اور وہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سو گئے۔ دکھی انسانیت کے غم سمیٹنے والے اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا یہ عظیم مسیحا پرسکون اور نفس مطمئنہ کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں ایسے پیش ہوئے کہ اس کی آرزو ہر کوئی کرتا ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264375 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More