اسلام نے حصول تعلیم پر زور دیا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنا
ہر بچے کے لیے ضروری ہے ۔تعلیم کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ اس سائنسی دور
میں مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو بھی روبوٹ کی طرح چلنا پڑتا
ہے۔کمپیوٹر کی ایجاد سے پہلے ایک کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے
بہت سے افراد کی ضرورت ہوتی تھی مگر جدید ٹیکنالوجی کے بعد دس بندوں کا
کام ایک اکیلا شخص وہ سارا کام کرلیتا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری میں
بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔سائنسی ایجادات نے انسان کو مشین کی طرح تیز
کردیا ہے۔
قیام پاکستان سے آج تک حکومتی سطح پر فروغ تعلیم کے لیے عملی اقدام
اٹھائے گئے ۔ ہر حکومت نے گھر گھر تعلیم پہنچا نے کے لیے نت نئے
پروگرامز بھی متعارف کرائے۔پاکستان میں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب
سمجھا جاتا تھا وہاں لڑکیوں کو سکول میں لانے کے لیے وظیفہ کی صورت میں
مالی امداد تک بھی دی گئی ہے تاکہ غربت والدین کے لیے تعلیم کے میدان
میں بچیوں کے آڑے نہ آئے ۔ حکومت نے جدید دور کے تقاضے پورے کرنے کے
لیے لیپ ٹاپ جیسی سکیم بھی متعارف کرائیں جس سے بہت سے بچے مستفید ہوئے۔
ہرحکومت نے گورنمنٹ سکولز کی ہر دور میں بھرپور مدد کی مگر ہمیشہ کی
طرح وہ مقاصد حاصل نہ کر سکی جن کی وہ امید رکھتی تھی۔
تعلیم کے میدان میں جہاں حکومتی سرپرستی میں چلنے والے سکولز کام کررہے
ہیں وہاں پرائیویٹ سکولز بھی کسی سے کم نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ پرائیویٹ
سکولز ہر شخص کی دسترس میں نہیں ہوتے۔ غریب لوگوں کا تو اچھے اور مہنگے
پرائیویٹ سکولزمیں بچے پڑھانا خواب ہی رہا ہے۔ غریب کے بچوں کے نصیب
میں تو صرف گورنمنٹ سکولز ہی رہے گئے تھے مگر ایک ادارہ ایسا بھی ہے جس
نے کم آمدنی و غریب طبقے کی رسائی ہر لحاظ سے اچھے بلکہ معیاری سکولز
کی طرف کرادی ہے تویہ غلط نہ ہوگا۔ اب باشعور والدین کی خواہش ہوتی ہے
کہ ان کا بچہ بھی اس سکول میں داخل ہوجہاں معیاری تعلیم دی جارہی ہو۔
حکومت کے اس ادارے کا نام پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہے جسے عرف عام میں
پیف (PEF)بھی کہا جاتا ہے۔ پیف کی حمایت اورمخالفت میں بہت سے کالم
لکھے جاچکے ہیں لیکن سرکاری ، پرائیویٹ اور پیف سکولز کا موازنہ کرنے
کے بعد یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔ پیف ایک ایسا ادارہ ہے جس کا
ہرملازم رشوت جیسے گھناونے جرم سے پاک ہے۔ پیف کے ملازمین اپنے پارٹنرز
سکولز سے کچھ کھانا تو دور کی بات سادہ پانی پینا بھی گوارا نہیں کرتے۔
تعلیم کے شعبہ میں اس ادارے کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ 550روپے
فی کس میں اتنی معیاری تعلیم اور 100فیصد سہولیات صرف پیف پارٹنرز ہی
دے سکتے ہیں ۔ دوسری طرف گورنمنٹ سکولز کو ہر طرح کی سہولیات اور
اساتذہ کو ہزاروں اور لاکھوں میں تنخواہ دینے کے باوجود حکومت کو
مایوسی ہی مل رہی ہے۔پیف کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر کلاس کا نصاب خود مہیا
کرتا ہے جس کو پڑھانا پیف سکولز پر لازم ہے اور پھر سال کے آخر میں ان
کا کوالٹی اشورنس ٹیسٹ (QAT)بھی لیتا ہے۔ اس ٹیسٹ لینے کا طریقہ اتنا
سخت ہے کہ ان کے سامنے NTSوالے بھی فیل ہیں۔ مختلف سرکاری ، پرائیویٹ
اور پیف سکولوں کے بچوں کا موازنہ کیا ہے تو ثابت ہوا کہ گورنمنٹ اور
پرائیویٹ سکولز کے کلاس پنجم کے طلبہ کو انگلش میں اتنے مضامین، خط ،
کہانیاں اور درخواستیں نہیں آتیں جتنی پیف سکولز کے کلاس سوم کے بچوں
کو سلیبس میں یاد کرائی جاتی ہیں۔2017 میں پنجاب کا تعلیمی بجٹ 345 ارب
روپے اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن16 ارب روپے تھا ۔ گورنمنٹ سکولز کا
اتنا زیادہ بجٹ ہونے کے باوجود نتائج حوصلہ افزا نہیں آئے جبکہ پیف
پارٹنرز نے اتنے کم بجٹ کے باوجود معیاری اور عمدہ تعلیم دیکر ثابت
کردیا کہ وہ اپنے ادارے اور بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ نہیں کررہے۔
پنجاب میں سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکولز
سے کیوں خوف زدہ ہے؟ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اتنی کم فیس میں
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے100 فیصد سہولیات اور کوالٹی اشورنس ٹیسٹ دے
کر اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
والدین اپنے گاؤں اور شہر میں پیف سکولز کا پوچھ پوچھ کر اپنے بچوں کو
داخل کرارہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے پیف پارٹنرز سکولوں کی فیس میں
اضافہ نہیں کیا گیا۔ پی ایس ایس پی سکولز کوکئی ماہ سے فنڈجاری نہیں
کیے گئے۔ شاید پیف سکولز سے گورنمنٹ سکولزکی نفرت کی وجہ بھی یہی ہے کہ
گورنمنٹ سکولزجو دس دس بچے اور تین ٹیچر ز کے ساتھ چل رہے تھے اور مفت
کی روٹی توڑ رہے تھے ان سے وہ سکول لیکر پیف کو دے دیے گئے جہاں آج ان
سکولز میں دو سو سے زائد بچہ تعلیم حاصل کررہا ہے۔
خان صاحب کی حکومت آئی تو تمام پیف پارٹنرز سے لاہور میں صوبائی وزیر
تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے وعدہ کیا تھا کہ اکتوبر2018تک سب پارٹنرز کے
بقایاجات کلیئر کرادیں گے اور پیف کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے مگر
پیف پارٹنرز آج تک اپنے بقایاجات کے لیے دفاتر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ پیف
پارٹنرز تواس وقت موجودہ حکومت سے بہت مایوس ہورہے ہیں۔ آئے دن پیف
سکولز کے لیڈران کبھی پیف چیئرمین سے تو کبھی سیکرٹری ایجوکیشن سے مل
رہے ہیں مگر مایوسی کی فضا بدستور قائم ہے۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ
موجودہ حکومت مالی بحران پر قابو پانے کے لیے PEC اور PEF دونوں اداروں
کو ختم کرنے جا رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے پیف پارٹنرز دل برداشتہ
ہورہے ہیں۔
وزیراعظم صاحب اگر واقعی آپ تعلیمی میدان میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو
غریب کے بچوں کو پرائیویٹ سکولز کی طرز پر معیاری اور مفت تعلیم دلوانے
کے لیے پیف کاساتھ دیں۔ پیف کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ادارے
کی ترقی کے لیے ان کے بجٹ میں فوری اضافہ کریں۔ عمران خان صاحب اور
ڈاکٹر مراد راس صاحب اگر آپ اپنی قوم کو ترقی کی منازل طے کرانا چاہتے
ہیں تو پھر پیف اور پیف پارٹنرز آپ کی مدد کررہے ہیں اورآپ ان کی مدد
کریں۔ حکومت کی طرف سے گورنمنٹ سکولز کو اتنی مراعات دینے کے باوجود
والدین ان سکولز میں بچے اور بچیوں کو داخل نہیں کرواتے کیوں؟ خود
سوچیے؟ پیف بچوں کو مفت کتب اور پارٹنرزکو 550 فی بچہ کے علاوہ کیا دے
رہا ہے۔ اس 550 روپے سے پارٹنر نے اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگر تمام
لوازمات پورے کرنے ہیں۔ اس کے برعکس پرائیویٹ سکولز 1000روپے سے لیکر
50000ہزارتک فیس لے رہے ہیں مگر والدین پھر بھی تعلیم سے مطمئن نہیں۔
خانصاحب آپ خود آکسفورڈ کے پڑھے لکھے ہیں۔ تعلیم کا معیار بھی آپ اچھی
طرح جانتے ہیں پھر خود موازنہ کرلیں ۔صوبہ پنجاب میں آپ کی حکومت ہے
اور آپ اپنے صوبائی وزیر تعلیم کو حکم صادر فرمائیں کہ جس طرح سندھ میں
سند ایجوکشن فاؤنڈیشن اپنے پارٹنرز کو مراعات دے رہا ہے اسی طرح پنجاب
میں بھی پنجاب ایجوکیشن اپنے پارٹنرز کو مراعات دے ۔پھر دیکھیں پیف
پارٹنر کس طرح تعلیم کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں۔
پیف پارٹنرز گورنمنٹ یا پرائیویٹ سکولز سے عداوت نہیں رکھتے بلکہ وہ تو
تعلیم کے میدان میں ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ کچھ
شر پسند عناصر گورنمنٹ اور پیف پارٹنرز کے درمیان دارڑیں ڈلوارہے ہیں
مگر صوبائی وزیرتعلیم ڈاکٹر مراد راس کو ایسے عناصر سے باخبر رہنا ہوگا
کیونکہ آپ پرائیویٹ ، گورنمنٹ اور پیف کے بھی وزیرتعلیم ہیں۔ آپ کی نظر
میں تمام تعلیمی ادارے یکساں ہیں۔غریب والدین کے بچوں کو معیاری
زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے پیف سکولز کو زیادہ سے زیادہ فعال
کریں۔ |