تحریر: طیبہ ثناء
حبیب جالب نے ٹھیک ہی تو کہا تھا
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
سانحہ ساہیوال کا سن کر دل درد سے پھٹنے کوہے، کان میں ان معصوم بچوں
کی آواز اور فریاد کرتی نگاہیں آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہیں کہ کیسے
ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے سر سے ماں باپ کا سایہ چھین لیا گیا۔ٹی وی
کھولا تو دیکھا خبر چل رہی تھی کہ ساہیوال میں پولیس نے مقابلے میں چار
دہشتگردوں کو مار دیا جب کہ دو فرار ہو گئے ان سے اسلحہ، جیکٹ، بندوقیں
برآمد ہوئیں۔ دہشت گردوں کے ساتھ ننھے دہشت گردوں کا کہنا تھا وہ لاہور
سے بورے والا ایک شادی میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد خبر
آئی ’’وزیر اطلاعات نے بتایا ہے کہ سی ٹی ڈی ٹیم پولیس نے مقابلے کے
بعد دہشتگردوں کو مارا اور ان سے اسلحہ برآمد ہوا۔ باقی جو عوامل پیش
ہوں گے آپ کو آگاہ کر دیا جائے گا‘‘۔ دہشتگرد؟ کون سے دہشتگرد؟ نہ کہیں
مقابلہ ہوا نہ کہیں اسلحہ برآمد ہوا۔ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے
رہے۔ ہر بار بیان بدلتے رہے مگر جو مسافر شادی کی تقریب میں خوشیاں
بانٹنے جا رہے تھے وہ تو رستے میں ہی خون میں نہلا دیے گئے۔
ہر شخص چیخ چیخ کر رو رو کر دہائی دے رہا ہے کہ سنو! سنو! ارے ظالموں
سنو! وہ ننھے بچوں کو گود میں لیے وہ مسافر دہشتگرد نہیں تھے۔ 35 سال
سے اس محلے میں علاقے میں رہ رہے تھے۔ یہ کیسی پولیس ہے کہ بچوں کے
ہمراہ شادی کی تقریب میں جانے والے نہتے خاندان کو معصوم بچّوں کے
سامنے گولیوں سے بھون ڈالا۔ کسی کی فریاد کو نہ سنا۔ کسی کے آنچل کی
لاج نہ رکھی۔ ننھے ننھے بچوں کی فریاد، آہ و بکا اتنی بے اثر تھی ان سے
ان کا آج و کل چھینتے ہاتھ نہ کانپے۔ کیسے ظالم اورسنگدل تھے۔ انہوں نے
صرف ایک گھر کو نہیں پورے وطن کو سوگوار کر دیا۔ اس ہم پاکستانی قوم اس
دردناک سانحے کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور پرزور اپیل کرتے ہیں کہ اس
شرمناک واقعہ کے تمام ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ ہمارا
معاشرتی کردار کسی دباؤ کا شکار ہے۔ یہ پولیس، یہ ہیرو۔ ان میں ایسے
بھیڑیے کہاں سے آگئے۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہن رکھے ہیں دستانے |