ملتان جانے کا اتفاق ہوا،گاڑی کوٹ ادو سے ہوتی ہوئی
مظفر گڑھ ابھی رُکی ہی تھی کہ کانوں کے پردوں تک ایک آواز سنائی دینے
لگی ’’10روپے والی گجک ،10روپے والی گجک‘‘۔آواز لگانے والا قریب آیا تو
میں نے دیکھا کہ9 سالہ لڑکا 10روپے والی گجک بیچ رہا تھا میں اس بچے کو
دیکھ کر حیرانی کی بھول بھلیوں میں کھو گیا کہ مستقبل کا معمار ،اس ملک
کا آنے والا ڈاکٹر ،انجینئر اپنی منزل کی پہلی سیڑھی پر ہی ڈگمگا رہا
ہے ؟اس بچے کے قیمتی وقت کا مول10روپے والی گجک ہے ؟
میں اس بچے کے کام کو مسلسل دیکھ رہا تھا وہ بس کے آگے والے دروازے سے
شروع ہوتا بس میں بیٹھے تمام مسافروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا کہ
وہ اس کی گجک خرید لیں پھر آگے چل پڑتا،اس طرح وہ بس کے اندر تین چار
چکر لگاتا اور پھر بیٹھ جاتا کوئی ایک دو مسافر اس کی گجک خریدتا۔لیکن
وہ بچہ ہمت نہیں ہارتا اور پھر سے 10روپے والی گجک کا نعرہ لگاتے ہوئے
بس میں چکر لگانے لگتا۔جب دوسری باربچہ تھک ہار کر بیٹھ گیا تو میں نے
اُسے اپنے پاس بلایا وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا میں نے اُس سے گجک خریدی
اور باتیں کرنے لگا باتوں باتوں میں میں نے اُس سے اُس کا نام پوچھا تو
کہنے لگا میرا نام صادق ہے9سال عمر ہے اور ملتان کے قریب ہی دریائے
چناب کے پاس میرا گھر ہے میں نے پوچھا تمہارے ابو کیا کرتے ہیں ؟تو
کہنے لگا میرے ابو فوت ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔
میں نے پوچھا تمہارے ابو کو کیا ہوا تھا۔۔؟کہنے لگا بھائی انکو کینسر
تھا میری امی محلے والے لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ، میری
اورمیری بہنوں کی سکول کی فیس اورابو کے لئے دوائی کا انتظام کرتی ۔ایک
دن ابو بہت بیمار ہوئے تو ہم انہیں ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر نے میری
امی کوبتایا کہ آپ کے شوہر کو آخری سٹیج کا کینسر ہے آپ اب تک کہاں
تھے۔۔۔ ؟امی کہنے لگی ڈاکٹر صاحب ہم غریب لوگ ہیں مزدوری کرکے اپنا اور
اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔۔۔!ڈاکٹر کہنے لگا آپ کے شوہر کو صرف دعا
کی ضرورت ہے یہ بات سن کر امی رونے لگی اور ہم بھی رونے لگ گئے،کچھ دن
بعد ہی ابو کا انتقال ہوگیا۔میں اور میری دوچھوٹی بہنیں ہیں کافی دن سے
امی بھی بیمار ہیں اور گھروں میں جا کر کام نہیں کر سکتیں ،اس لئے میں
یہ کام کر رہا ہوں ۔
امی مجھے گھر بیٹھے بیٹھے گجک بنا کر دے دیتی ہیں ساتھ میں میری بہنیں
بھی مدد کردیتی ہیں میں گجک کو لیکر اڈے پر آجاتا ہوں اورمظفر گڑھ سے
ملتان جانیوالی بس میں سوار ہو جاتا ہوں اور گجک بیچتا ہوں ۔اسی طرح
ملتان سے واپس مظفر گڑھ والی بس میں سوار ہوجاتا ہوں اور گجک بیچتا ہوں
میں نے پوچھا روزانہ کتنے پیسے بن جاتے ہیں اور بس والے تم سے کرایہ
لیتے ہیں یا نہیں ؟کہنے لگا بھائی کوئی لیتا ہے کرایہ ورنہ اکثر نہیں
لیتے۔
امی مجھے 30پیکٹ گجک کے بنا کر دیتی ہیں اور میں ایک پیکٹ 10روپے کا
بیچتا ہوں کبھی 20پیکٹ بکتے ہیں تو کبھی 25،بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ
30کے 30پیکٹ بک جاتے ہیں اسطرح میرے200یا250روپے روز کے بن جاتے ہیں جو
میں گھر جا کر اپنی امی کو دے دیتا ہوں ۔انہی پیسوں میں سے امی ہمارے
کھانے کا انتظام کرتی ہے او ر اگلے دن کیلئے گجک بھی بنا تی ہیں ۔اس
بچے کی بات سُن کر میں سکتے میں چلا گیا ،کیونکہ مختلف حساب کتاب کرنے
کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ 200یا 250روپوں میں چار بندوں کا
کھانا پینا ،دودھ ،گھر کا راشن وغیرہ اور30پیکٹ گجک کے بنانااور والدہ
کی دوائی کے لئے پیسے۔۔۔یہ سب کیسے پورا ہوتا ہوگا۔۔۔؟؟؟
میں نے صادق سے پوچھا آپ سکول نہیں جاتے تو کہنے لگا جب ابو زندہ تھے
تو جاتا تھا اب ابو فوت ہوگئے ہیں اب نہیں جاتا ،دو چھوٹی بہنیں ہیں وہ
جاتی ہیں مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔بھائی جب میں صبح گجک لیکر بیچنے
جارہا ہوتا ہوں تو میرے دوست سکول جارہے ہوتے ہیں ۔صادق کے ان الفاظوں
نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا جیسے زلزلہ کسی عمارت کی بنیادیں ہلا
کر رکھ دیتا ہے ۔پھر اچانک آواز آئی ’’ملتان‘‘ ’’ملتان‘‘اوروہ بچہ اﷲ
حافظ کہتے ہوئے اُتر گیا اور دوسری بس میں سوا ر ہوگیا ۔۔۔۔
سلام ہے اُس ماں کو جس نے اپنے بچوں کو محنت ،لگن اور حالات سے لڑنا
سکھایا ،اسطرح پرورش کی کہ ان کے اندر خودداری پیدا ہو اور وہ کبھی کسی
کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ۔سلام ہے اُس ماں کو جس نے اپنے بچوں کو ہمت
حوصلے اور برداشت کے سمندر سے تشنگی دی ۔یا اﷲ ہمیں بھی اپنے لئے اور
اپنے ملک کیلئے کچھ نہ کچھ کرنے کی ہمت برداشت اور حوصلہ عطا فرما تاکہ
ہماراملک ترقی کر سکے اور ہمیں کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرور ت
پیش نہ آئے ۔۔آمین |