گزشتہ شب ایک دوست سے ملاقات ہوئی کافی دنوں بعد
ملاقات کے سبب اچھا خاصہ ٹائم ساتھ گزرا ۔بہت سی باتیں ہوئیں وہیں ایک
بات انصاف کے حوالے سے چل نکلی۔دوست نے اپنے ایک ماموں زاد کی بات
سنائی اور ٹھنڈی آہ بھری اور افسردہ ہو گئے۔کہنے لگے کہ میرے کزن جو
امریکہ میں مقیم ہیں ایک معاملے میں پھنس گئے۔ جس میں قصور بھی انکا نہ
تھا اور فریقِ مخالف نے کیس بھی انہی پر کر دیا ۔چونکہ فریق ثانی
اثروسوخ والی ایک خاتون تھیں جس کے سبب وہاں کی پولیس بے بس تھی ۔معاملہ
ایکسیڈنٹ کا تھا۔ جس جگہ معاملہ پیش آیا وہاں کوئی کیمرہ نصب نہیں تھا۔
جس کے باعث وہ اپنی طاقت کا زور دکھا کر الٹا ان پر رعب ڈال رہی
تھیں۔دوست کا کہنا تھا کہ ممانی نے درخواست وہاں کی ہائی کورٹ کو دی ،
عدلیہ نے اپنا فرض پورا بھی کیا۔ صرف گیارہ دنوں میں کیس کی تحقیقات کر
نے کے بعد مجرم کو سزا کے ساتھ ساتھ بھاری جرمانہ بھی سنا دیا۔یہ ساری
بات سن کر یک لخت میں کانپ گیا کہ ہمارے اس ملک کا نظامِ عدل اتنا
کمزور کیوں ہے ۔بارہ سے چودہ گھنٹے کی لائیوکوریج چینلز نے دی۔ اس کی
ساری فوٹیج ثبوت کے طور پر موجود ہونے کے باوجود عدلیہ اتنی بے بس
کیوں۔۔؟صرف یہی نہیں بعد میں نکلوائے جانے والے کال ریکارڈز بھی منظرِ
عام پر آگئے۔ جس میں تمام کے نام موجود تھے ، ان تمام چیزوں کو ایک نجی
چینل نے نشر بھی کیا لیکن اس کے باوجود عدلیہ خاموش ۔مجھے حیرت ہوتی ہے
کہ ہر ٹھوس دلیل اور ثبوت کے باوجودسانحہ ماڈل ٹاؤن کو آج پانچ سال کے
قریب گزرجانے پر بھی فیصلہ نہ سنایا گیا ،بلکہ کیس کو طویل پر طویل کیا
جا رہا ہے۔ فقط اس لئے کہ ایک طرف اربابِ اختیار اور دوسری جانب مظلوم
ہے ۔اس کے علاوہ اس کیس کی ایک تفصیلی اور جامع رپورٹ ہمارے ایک محترم
جج باقر نجفی نے جو رپورٹ پیش کی ، اس کے سبب یہ بات روزِ روشن کی طرح
عیاں ہو گئی کہ مجرم کون ہے۔کس کے کہنے پر یہ سب ہوا ۔پھر بھی انصاف کا
کچھ پتہ نہیں۔
یہاں بہت ہی معذرت کے ساتھ ایک بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جب اے
پی ایس اسکول پر حملہ ہوا گو کہ وہ دہشت گردوں کی ایک بزدلانہ کاروائی
تھی ۔ لیکن یہاں ایک سوچ جو مجھے اور میرے جیسے کئی لوگوں کو سوچنے پر
مجبور کرتی ہے کہ اگر ہمارے وہ ادارے جن کا کام سکیورٹی فراہم کرنا ہے
انکے کسی اپنے پر بیتے تو ہرحربہ جائز ۔جبکہ عام عوام اگر پس رہی ہو تو
خامشی کہاں کا انصاف ہے۔ اس کے علاوہ کہیں یہ بات بھی تو نہیں سوچی جا
رہی کہ اس میں پولیس جیسا ایک ادارہ جس کا کام سکیورٹی دینا ہے ملوث ہے۔
جس کے باعث اپنی ناک کو بچانے کے لئے چپ سادھ لی گئی ہے۔ساتھ ہی موجودہ
حکومت جو کہ اس کام کے نفاذ کی جنگ لڑ رہی تھی اور کہا جاتا تھا کہ
ماڈل ٹاؤن کا کیس ہمارا کیس ہے آج انکی ترجیحات کا قبلہ تبدیل کیوں ہو
گیا ۔
اس کے ساتھ عدلیہ کی جانب آئیں تو کہیں تو عالم یہ ہے کہ خود جا جا کر
مجرموں کو بے نقاب کیا جا رہا ہے دوسری ہی جانب قاتل موجود ہیں،گواہ
موجود ہیں اور شاید تاریخ میں ایسا نہ ہوا ہو کہ ایک ہی کیس میں چون
گواہوں نے گواہی دی ہو لیکن پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ فیصلہ کیوں التو ا
کا شکار ہے ۔بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی۔ پورا میڈیا اس وقت براہ راست
اس کی منظر کشی کرتا رہا اور ہر لمحے کی ویڈیو موجود ہونے کے باجود اس
کیس کو اتنا طول دیناسمجھ سے باہر ہے۔ بہر حال آج کے موضوع کا سبب فقظ
عدلیہ کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ جہاں تجاوزات کا ہٹانا ضروری
ہے۔ وہ تجاوزات کے جہاں کوئی قتل نہ ہوا ،جہاں غریب روزی کما رہے
تھے،جہاں پولیس ان پر گولیاں نہیں برسا رہی تھی بلکہ روز بروز اپنے
اخراجات چور راستے سے پورے کرتی تھی ،پھر بھی نقصان ہوا تو غریب کا نہ
کہ ان غنڈوں کا کہ جن کے باعث آج وہ اس نہج کا سامنا کر رہے ہیں ،اس کے
ساتھ عدلیہ جہاں مجرموں کودی جانے والی بے جا آسائش کو پکڑ رہی ہے
،جہاں لندن میں کوئی کیس پینڈنگ تو نہیں کو دیکھنا ہے وہیں غریب اور
نہتی عوام پر برسائی ہوئی سرکاری گولیوں کا حساب بھی ضروری ہے ۔ اس پر
بھی ذرا توجہ دیں کیونکہ بے انصافی کا انجام بغاوت ہوتا ہے۔ |