مسیحا کون؟

مجھے سمجھ نہیں آتا ہم اپنی تعلیمات کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ روز سڑکوں پر سرے عام لوگوں کا قتل ہو رہا ہے۔ پہلے کبھی کہیں پر اس طرح کا کوئی واقعہ سننے کو ملتا تھا۔ تو اس پر انسان غم میں نڈھال ہو جایا کرتا تھا۔ مگر اب تو یہ روز کا کام بن چکا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے سسٹم کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ ہماری انسانیت قدر سو رہی ہے۔

ہم اپنی انسانیت کو تھپکی دے کر میٹھی نیند سلا رہے ہیں۔ روز کئی بچے یتیم ہو رہے ہیں، روز کئی ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہے۔ اور ہم خاموشی سے تماشا دیکھ رہیں ہیں۔ ہم لوگوں کو تب تک کچھ کرنے کی عادت نہیں ہے جب تک پانی سر سے اوپر نہ چلا جائے۔ جب تک تباہی ہمارے اپنے گھروں تک نہ آ جائے۔ ہم سب انتظار میں ہے کہ کوئی دوسرا آ کر اس سسٹم کو ٹھیک کرے مگر ہم خود اپنے حصے کے، اپنے under کے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ انصاف کی امید عدالتوں سے اور حکمرانوں سے لگاتے ہیں۔ اور خود ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ آخر کیوں ہم اپنی انسانیت کو سلا کے بیٹھے ہیں۔ مسیحوں کے انتظار میں اور اس بات کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ "ہمارا مسیحا ہم خود ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے بھی تو آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جن کو اپنی حالت کے بدلنے کا خود خیال نہیں ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ رہیں۔ اور خود دوسرے کے بچوں کی حفاظت میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ خدارا سمجھو جب تم دوسروں کے بچوں کی حفاظت اپنے بچوں کی طرح نہیں کروں گے۔ تب تمھارے بچے محفوظ کیسے رہے گئے۔ اگر تم دوسروں کے بچوں کی حفاظت اپنے بچوں کی کرو گے تو کوئی دوسرا تمھارے بچوں کی حفاظت کر رہا ہو گا۔ یہ تو قدرت کا قانون ہے۔ کہ انسان جو کرتا ہے اسکو اس کا بدل ضرور ملتا ہے۔
"انسان آپ کو بدل نہیں دے سکتے مگر خدا کی ذات کسی کا احسان نہیں رکھتی ہے۔"

ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ اس کو پوری ایمان داری سے پڑھائے تو پھر آپ کو بھی ان لوگوں کو ایمانداری سے سکھانا ہو گا جو آپ کی ذمے داری ہے۔ یقین کیجیے اگر ہر کوئی اپنا کام ایمانداری سے کرنا شروع کر دے۔ ہر فرد کو عزت دی جائے۔ ہر فرد کی قدر کی جائے۔ چاہیے وہ جس بھی شعبہ حیات سے تعلق رکھتا ہو۔ تو یقین جانے دنیا کی آدھی سے زیادہ برائیاں ختم ہو جائے گی۔

زیادہ تر برائیاں جھوٹی عزتوں کا برم رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم لوگوں کو ان کے حصے کی عزت دینا شروع کر دیں گے تو پھر آپ کی عزت میں کمی نہیں آئے گی

عجب ہے کہ
میں اس کو عزت نہیں دے رہا تھا
وہ بھی مجھ کو حقارت سے دیکھ رہا تھا
نہ میں یہ سمجھ سکا، نہ کوئی سمجھا سکا
جو وہ انجان شخص مجھے بتا گیا
"عزت کے بدلے عزت ہے صاحب"۔

سننا تھا ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ اور ہر روز جس حساب سے قتل ہوتے ہیں پھر تو اس حساب سے ہماری انسانیت تو کب کی مر چکی ہے۔ خدارا آنے والی نسلوں کے لیے اس قدر خوف مت چھوڑو کے ان کو جینے سے بھی ڈر لگے۔ ان کی زندگی کے نام سے روح کانپ جائے۔ انصاف کو اتنا مہنگا نہ کروں گے لوگوں کی انصاف حصہ کرنے کی دھندلی سی امید بھی ختم ہو جائے۔ اور ظلم کو اس قدر آسان اور سستا نہ کروں گے۔ ہر طرف ظلم عام ہو جائے۔ اور ظالم کے اندر کا خوف ختم ہو جائے۔ لوگوں کو انصاف کے حصول کے لیے برائی ہی کو ہتھیار بنانا پڑے۔ اس معاشرے کو ایسا ہی رہنے دیجئے کہ انصاف کے لیے عدالتوں کا رخ کیا جائے۔ نہ کے گاڑیاں جل کر ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا کر، راستے بند کر کے مانگا جائے۔ خدارا ہماری قوم کے لوگوں پر رحم فرما۔ ہمیں آسانیاں عطا فرما اور ان کو تقسیم کرنے کا شرف بھی عطا فرما۔ آمین
 

Ayesha Tariq
About the Author: Ayesha Tariq Read More Articles by Ayesha Tariq: 28 Articles with 25606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.