اردو زبان کا ارتقاء

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

اردو ہماری قومی زبان ہے جو پاکستان کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ دنیا کی دوسری زبانوں کے مقابلے میں اس کی عمر بہت کم ہے۔ بولی کی حیثیت سے اس کا آغاز گیارہویں صدی کے بعد آہستہ آہستہ ہوا اور کئی سوسال یہ بولی کی حد سے علمی و ادبی زبان بنی۔

اب سے کوئی پانچ ہزار سال پہلے وسطی ایشیا سے ایک بہادر کو اٹھی اور پنجاب کی راہ سے برصغیر پاکستان و ہند میں داخل ہوگئی۔ اس قوم کا نام آریا تھا۔انہوں نے اپنے نام پر ہندوستان کا نام آریہ ورت رکھا جس کے معنی آریاؤں کے وطن کے ہیں۔ اس طاقتور قوم نے یہاں کے اصل باشندوں، کول دراوڑ وغیرہ کو جنوب کی طرف بھگا دیا اور بعض کو غلام بنا لیا۔ یہ لوگ پنجاب اور گنگا جمنا کے زرخیز و شاداب علاقوں میں آباد ہوگئے ۔انار یوں کی زبان سنسکرت تھی جس کے معنی آراستہ پیراستہ اور مقدس دیوتاؤں کی زبان کے ہیں.یہ زبان بڑی پاکیزہ اور مقدس خیال کی جاتی تھی, حتیٰ کہ کسی غلام وغیرہ کو اس کے سننے اور بولنے کی اجازت نہ تھی. کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برہمن کے منہ سے سنسکرت کے الفاظ سن لیتا تھا تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا دیا جاتا تھا کہ دوسروں کو عبرت ہو. گمان ہے کہ اس دور میں بولی کی زبان کوئی اور تھی جس کا نام پراکرت یعنی خودرو زبان رکھا گیا. آہستہ آہستہ آریوں کی زبان اور دیسی زبان میں میل جول شروع ہوا اور دونوں زبانوں کے الفاظ سے مل کر مختلف بولیاں رائج ہوگی جو عام لوگ کاروبار اور لین دین میں استعمال کرتے تھے جس طرح آج ہم اپنےاپنے صوبوں میں اپنی اپنی علاقائی زبانیں کام میں لاتے ہیں .سنسکرت کا استعمال آہستہ آہستہ محدود ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کے سمجھنے اور بولنے والے صرف چند براہمن یا پنڈت رہ گئے۔

رفتہ رفتہ ہر علاقے کی پراکرت میں نمایاں فرق پیدا ہوگیا اور ان کے نام بھی بدل گئے. مثلا مگدھ کی علاقے میں ماگدھی, میرٹ کے علاقے میں مہاراشٹری اور متھرا کے علاقے میں برج یا شوری سنی پراکرتیں رائج تھی۔برج کو برج باشا یا برج بھاگا بھی کہا جاتا ہےجسے محققین کا ایک گروہ اردو کا ماخذ قرار دیتا ہے۔

بعض پراکرت تو نے ترقی کی اور بولی کی حد سے نکل کر ادبی صورت اختیار کرلی۔ مثلا ماگدھی پراکرت نے’ پالی’ کا روپ دھارا جسے مہاتما بدھ نےاپنے مذہب کے پرچار کے لئے استعمال کیا۔ اسی طرح شوری سینی کی ایک صورت مغربی ہندی بنی۔ ایسی بولیوں کی عوامی صورت بھی قائم رہی۔ اس کو پراکرت کا’ اپ بھرنش’ روپ کہتے ہیں یعنی ماگدھی پراکرت کا ادبی روپ، پالی اور عوامی صورت ماگدھی اپبھرنش ہے۔

راجہ بکرما جیت نے سنسکرت کو پھر زندہ کرنے کی کوشش کی مگر اسے عروج حاصل نہ ہوسکا۔ عوام پراکرتیں بولتے رہے۔

غیر ملکی حملہ آوروں نے ان بولیوں کو متاثر کیا۔ چنانچہ بے شمار الفاظ عربی، یونانی اور ترکی کے یہاں کی زبان میں شامل ہوگئے۔ آخر بدلتے بدلتے یہاں کی بولیوں میں سے برج پاشا نے ترقی کر لی اور شمالی ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں بولی جانے لگی۔ محمد بن قاسم نے 712 عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا تو اس اسلامی حملے سے مسلمانوں کی زبان اور تہذیب و معاشرت کا اثر سندھ پڑا۔ پھر سلطان محمود غزنوی نے حملے کیے تو اس دوران میں فارسی زبان ہندوستانی زبان پر برابر اثرانداز ہوتی رہی۔ شہاب الدین غوری حملہ آور ہوا تو اس وقت یہاں کا زبردست راجہ پرتھوی راج تھا۔ اس کے درباری شاعر چندر بردے نےاس کے عہد حکومت کے بارے میں ایک کتاب’ پرتھوی راج راسو’ بھاشا زبان میں لکھی۔ اس میں عربی فارسی کے بہت سے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔

شہاب الدین غوری کے بعد قطب الدین ایبک نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور فارسی کو فاتحانہ حیثیت حاصل ہو گی۔ اس وقت سے مسلمانوں اور ہندوؤں کا آپس میں مستقل میل جول شروع ہوا اور فارسی، عربی اور ترکی کے الفاظ یہاں کی پراکرتوں میں شامل ہوتے گئے۔ چنانچہ فارسی اور ہندی نہ صرف ایک دوسرے سے متاثر ہوئی بلکہ ایک نئی زبان معرض وجود میں آنے لگی۔

لاہور کے بعد جب دہلی دارالحکومت بنا تو پنجاب کے باشندوں کے ساتھ ان کی زبان بھی دہلی پہنچی اور رفتہ رفتہ ترقی کے مراحل طے کرنے لگی۔ دہلی سے مسلمانوں کا سیلاب بنگال، دکن اور گجرات کی طرف بڑھا اور یہ نئی زبان جو اس وقت ابتدائی حالت میں تھی فتوحات کے سیلاب کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلنے لگی۔ علاوالدین خلجی کی عہد میں پہلی مرتبہ یہ دکن پہنچی اور محمد تغلق کے عہد میں دکن میں پھیلی جبکہ دولت آباد دارالخلافہ بنایا گیا اور اس دور میں حسن نے 1347 عیسوی میں بہمنی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اس خاندان نے اردو کے ابتدائی دور میں بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔

پٹھانوں کے بعد مغلیہ سلطنت قائم ہوئی۔ ان لوگوں کی بھی زبان فارسی تھی جس میں بہت سے عربی اور ترکی کے الفاظ ملے ہوئے تھے۔ نیز مغلوں کے عہد میں یورپ کی بعض قومیں ہندوستان میں آئی اس لیے کچھ پرتگالی، فرانسیسی اور انگریزی الفاظ بھی شامل ہوتے گئے۔ اس طرح یہ زبان ترقی کے مراحل طے کرتی رہی۔ شاہ جہاں نے جب آگرے سے اپنا تخت دلی منتقل کیا پرانی شہر سے باہر ایک نئی بستی بسائی جس میں فوجیوں کے علاوہ دوسرے شہری بھی آباد ہوئے۔ وہاں یہ بولی مقبول ہوئی۔ چونکہ فوجی چھاؤنی کو اردو کہتے ہیں اس لئے اسی علاقے کو جس میں شاہی قلعہ بھی تھا اردوئے معلی کا نام دیا گیا۔یہ زبان قدیم شہر دہلی میں بولے جانی والی زبان سے مختلف تھی اس لئے اسے زبان اردو امالہ کہا گیا۔ مغل شہزادے اور شہزادیاں اردو زبان بولنے اور سمجھنے لگیں۔ شاہ جہاں نے خود بھی اردو میں گفتگو کرتا تھا۔ اس شاہی سرپرستی کا نتیجہ یہ نکلا اردو کرنا صرف دینی بلکہ پورے ملک میں چرچا ہو گیا۔ جب دہلی اجڑی تو وہاں کے شاعر لکھنؤ پہنچے یہاں ان کی خوب آؤ بھگت ہوئی اور اس طرح زبان کو پورے ہندوستان نے مکمل طور پر اپنا لیا۔

دراصل بہت عرصہ تک اردو زبان کی رفتار سست رہی کیونکہ دفتری اور عدالتی زبان فارسی تھی اور سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے اس کی عزت اور حیثیت بڑھ گئی تھی۔ گویا قطب الدین ایبک سے لے کر اورنگزیب عالمگیر تک کا زمانہ اردو کا عبوری دور کہا جا سکتا ہے۔ اس دوران میں اردو صرف عوامی زبان کی حیثیت سے روزمرہ کی ضروریات کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ علمی و ادبی زبان فارسی ہی رہی۔ البتہ فارسی اور ہندی شاعر کبھی کبھی تفنن طبع کے لیے شعر کہ لیتے تھے جس میں کوئی لفظ فارسی کا اور کوئی ہندی کا ہوتا تھا۔ بعض اوقات ایک مصرع فارسی کا اور ایک مصرع ہندی کا ہوتا تھا۔

امیرخسرو جس سے اس لحاظ سے اردو زبان کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے، اس قسم کے اشعار کہتا رہا ہے

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلش چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

شاہجہان کے عہد میں یہ زبان جسے اردوئے معلی یا ہندوستانی کہا جاتا تھا، عام بولی اور سمجھی جاتی تھی۔ شاہ جہاں کے عہد کے شاعر چندر بھان برہمن کی اردو زبان کی غزل کا شعر ہے

خدا نے کس شہر اندرہمن کو لا کر ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالہ ہے

برہمن پہلا شاعر ہے جس نے باقاعدہ اردو زبان استعمال کی ہے۔ اس دور میں نثر کا نام تک نہ تھا صرف نظم ہیں نظم تھی۔ اسے ریختہ کہا جاتا تھا۔

سعدی کے گفتہ ریختہ در ریختہ در ریختہ

ریختہ سے مراد اردو شاعری لی جاتی ہے۔ غالب کہتے ہیں۔

ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

ریختہ کی علاوہ اس زبان کے لیے ہندوستانی، کھڑی بولی اوراردوئے معلی کے بھی نام استعمال ہوتے رہے۔ مصحفی پہلا شخص ہے جس نے اردو کا لفظ استعمال کیا ہے۔

خدا رکھے ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے اور انہوں نے بھی ملکی مصلحتوں کی بنا پر اس نوزائیدہ بچے کو سایہء عاطفت میں لیا اور یہ بڑی تیزی کے ساتھ پروان چڑھنے لگا۔ درحقیقت اردو کی تخم ریزی غزنوی دور میں پنجاب میں ہوئی۔ نواح دہلی اور دکن میںآبیاری ہوئی اور مغلیہ سلطنت کے زوال پر یہ برگ و بار لائی۔

رفتہ رفتہ اردو نے ترقی کرکے فارسی کی جگہ لے لی۔ولی، حاتم، میر، سودا، میر حسن، درد، انشاء، آتش، نسیم، بے نظیر، دبیر،حالی، اکبر اور اقبال وغیرہ نے اس کا دامن پھولوں سے بھر دیا۔

اردو نثر لکھنے والوں میں ملا وجہی، فضلی، میرا من، حیدر بخش حیدری، رجب علی سرور، غالب، سرسید، حالی، نذیر احمد، ذکاء اللہ، اور آزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے طرح طرح کی ادبی اور علمی کتابیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

یہ ان سب لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اردو ایک ایسی زبان بن گئی ہے جو دنیا کی کسی بھی زبان کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

ہمارا فرض ہے کہ اردو بولے اردو پڑھے ہیں اور اردو لکھیں۔ اردو ہماری بزرگوں کا مقدس ورثہ ہے جس کی حفاظت اور ترقی ہمارا اولین فرض ہے۔

محمد واصف ملک
About the Author: محمد واصف ملک Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.