انسان جتنا بھی ترقی کرلے،اپنے آپ کونت نئی سہولتوں،
ایجادات،سائنس وٹیکنالوجی اوردورجدیدکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرلے،مگر جب تک
اخلاق اوراحساس کے جذبہ سے عاری رہے گا،زندگی کے اصل حسن وجمال سے آگاہ
ہوسکے گا،نہ کبھی آسودہ حال ہوگااورنہ ہی سکون و اطمینان حاصل کرپائے
گا۔تہذیب و شائستگی کے بغیر ذہن ودل کی فضاء نت نئی کثافتوں سے مزیدآلودہ
ہوتی رہے گی۔اخلاق اور احساس ہی وہ عطائے رب ذوالجلال ہے،جس سے فکرکودرستی
ملتی ہے،قلب کوپاکیزگی عطاء ہوتی ہے۔اخلاق اوراحساس کے بغیرظاہری کامیابی
اورفائدہ کے باوجود نتائج کے اعتبارسے بے سکونی،پریشانی، ناکامی اورنامرادی
ہی مقدرٹھہرے گی۔
آج کے اس جدید دورمیں دیہات ،گاوٗں،قصبہ،شہرہرجاہ ومقام ضرورت کی خاص وعام
چیزباآسانی دستیاب ہے،مگرہمارے شہروں سے لے کردیہات تک کوئی چیزنایاب ہے
توصرف اخلاق اور احساس۔ہماری انفرادی مجالس،گھروں کاماحول،گلی محلہ،مساجد ،
مدارس ، سکول،کالج،یونیورسٹیز،الیکڑونک وپرنٹ میڈیاکہیں بھی تواخلاق
وکردارکاتذکرہ وتربیت نہیں۔افسوس اس طرف نہ بچوں کے سرپرستوں کا دھیان ہے
اورنہ ہی حکومتی وریاستی سطح پراعلیٰ اخلاقی اقدارکی ترویج کے لئے اقدامات
کئے جارہے ہیں۔اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں کی ترجیح بھی محض روائتی تعلیم
بن کر رہ گئی ہے،جہاں مادی آسائشوں کے حصول اورزیادہ سے زیادہ دولت کمانے
کے جنون میں مہارت کوہی اعلیٰ ڈگری قراردیاجارہاہے۔ اخلاقی تربیت کا کہیں
کوئی انتظام نہ ہونا قومی المیہ ہے۔معاشرہ،درسگاہیں اورریاست نئی نسل
کوتعلیم کے ساتھ اچھی تربیت سے غافل کیوں ہیں ؟ آخرہمیں مقاصد تعلیم کے
تعین میں اخلاقی ومعاشرتی تربیت کااحساس کب ہوگا؟
اصلاح معاشرہ ،شعوراوراعلیٰ اخلاقی تربیت کو یکسرنظر اندا ز کرنے سے کوئی
بھی طریقہ تدریس،کوئی بھی نصاب تعلیم ہرگزموئثر نہیں ہو سکتا ۔نئی نسل کی
تربیت نہ کرنے سے معاشرے میں جرائم مزیدبڑھتے رہیں گے، ظلم کے اندھیرے مزید
گہرے ہوتے رہیں گے،حالات مزید بگڑتے رہیں گے،ریاست عوام کوکوستی رہے گے اور
عوام حکمرانوں کوطعنے دیتے رہیں گے۔مگرافسوس ہمیں اس لاپرواہی کااحساس کب
ہوگا ؟کب تک خودفریبی کاشکاررہیں گے؟ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ تعلیم کے اصل
مقاصدکے حصول اوربہترین نتائج کے لئے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے۔
تعلیم کی تعریف کے مطابق تعلیم کاایک مقصد"اقدارکی نسل در نسل منتقلی
ہوتاہے"۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نئی نسل کی تربیت ،اعلیٰ
کرداراوراخلاق کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں۔ بچوں اورنوجوان نسل کی اخلاقی
تربیت اور معاشرے کا ایک اچھافردبنانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی ۔جب
معاشرہ میں تعمیری اخلاقی عنصر کی کمی کے باوجودانسانی کردار کی تربیت سے
غفلت برتی جائے،تومعاشرہ اپنی تمام تر ترقی وٹیکنالوجی اورآسائشوں کے
باوجودتباہی اوربربادی کا شکار ہوجاتاہے۔پھرایسے معاشرے میں
بدتہذیبی،ایذارسانی،حق تلفی، درندگی ،ظلم و نا انصافی عام ہوجاتے ہیں۔
انسانوں کے دل سے احساس اوررحم ختم ہو جاتا ہے۔جب دلوں سے احساس اوررحم ختم
ہو جائے تو زینب ،عاصمہ،اے پی ایس،قصور،تونسہ ،ماڈل ٹاوٗن اور ساہیوال جیسے
المناک سانحات جنم لیتے ہیں۔
والدین،اساتذہ اورمعاشرہ پربھاری ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ بچوں کی
تربیت پرخصوصی توجہ دیں۔رسول اﷲ کے ارشادمبارک کامفہوم ہے:"باپ اپنی
اولادکوجوکچھ دیتاہے اس میں سے بہترین عطیہ اچھی تعلیم وتربیت ہے۔" جبکہ
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کامذاق اُڑانا،ایک دوسرے کے نام
رکھنا،دوسروں کے حالات کریدنا،لوگوں کی پیٹھ پیچھے برائیاں کرنا ہمارا
محبوب ترین مشغلہ اور ہمارے کردار کاجزوئے لازم بن چکاہے۔ہم اس پرہی
اکتفانہیں کرتے بلکہ اپنی اولادکواپنے ہرعمل کے ذریعہء بچپن سے ہی گالی،ما
ر پیٹ ، تشدد،بے ایمانی، جھوٹ اورمنافقت سکھارہے ہوتے ہیں اورامیدیہ رکھتے
ہیں کہ اچھے دن آئیں گے۔سچ تویہ ہے ،نسل نو کی تربیت کے باب میں والدین ،
معاشرہ،اساتذہ اورریاست ہم سب مجرمانہ غفلت اورلاپرواہی کے مرتکب ہورہے ہیں
۔
کسی بھی معاشرے کی بقاء کے لئے اخلاقی رویے بنیادی حیثیت رکھتے
ہیں۔روسوکہتاہے کہ جس معاشرے میں ہرشعبے کے ماہرین ہوں لیکن ان میں اچھے
انسانوں والے اوصاف نہ ہوں،تو سمجھ لیجئے کہ اس معاشرے میں کچھ بھی
نہیں۔معاشرے کے قیام، استحکام اوراس کی بقاء کے لئے کہیں بھی یہ نہیں
کہاگیا کہ تم میں سب سے بہترین انسان وہ ہے جواچھا ڈاکٹر،قابل وکیل،ذہین
سائنسدان،سمجھدارسیاستدان یا زیادہ کامیاب تاجر اور بزنس کی باریکیوں
کواچھے طریقہ سے سمجھنے والا ہے،بلکہ یہ تعلیم دی گئی کہ،تم میں سے بہترین
انسان وہ ہے ،جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں ۔
یونانی فلسفی سقراط نے اخلاقی اوصاف پرزوردیاہے ،وہ کہتاہے" اچھے
ہنرمند،اچھے کاریگراورمختلف شعبوں کے ماہرین تب ہی کسی معاشرے کی ترقی
کاباعث بن سکتے ہیں جبکہ وہ اچھے انسان بھی ہوں"۔سارے دین کا خلاصہ اچھے
اخلاق اورمیٹھابول ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا "میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ
محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہترین ہوں (بخاری 3759)۔
اخلاق ، تہذیب وشائستگی اوراحساس ایسی قیمتی چیزہے ،جس کے لئے مسلسل تربیت
کی ضرورت ہے۔اﷲ عزوجل نے انسان کی اصلاح اور تربیت کے لئے کم وبیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیائے کرام کودُنیا میں بھیجا،جنہوں نے دُنیامیں آکرانسانوں
کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم فرمائی۔بے شک ہمارے پیارے آقانبی آخرالزمان حضرت
محمدمصطفیﷺتمام انسانوں میں سب سے بڑھ کراعلیٰ اخلاق پرفائز ہیں۔اﷲ رب
العزت کا ارشادہے کہ رسول اﷲ ﷺکی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔حضور
ﷺکے نقش قدم پرچل کرہی انسان بلند اخلاق کا مالک بن سکتاہے۔ لہٰذاجب تک
ہمارے مقاصدتعلیم اور نصاب تعلیم کا مرکز ومحور سیرت النبی ﷺ نہیں ہوگا،قسم
ہے واحد ہ لاشریک کی، پھر صرف حکمران بدلیں گے ، نظام بدلیں گے ،مگرحالات
کبھی نہیں بدلیں گے! |