سانحہ ساہیوال کے بعد ہر طرف بے بسی ہی بے بسی ہے ۔ کچھ
لکھنا ممکن نہیں ہو پارہا ،قلم ساتھ نہیں دے رہاہے ۔ بس میرے تصور میں دو
معصوم سی چار اور چھ سال کی بچیاں جم کر بیٹھ گئی ہیں ۔ان کی آنکھیں ،چہرہ
،بے بسی ،ڈر اور خوف سے زرد رنگت ،کوئی ایسا قلم نہیں ،کوئی ایسا ادیب
ولکھاری نہیں جو ان کے دل پر بیتے جانے والے صدمے کو بیان کر سکے ۔ابھی تو
انہیں دہشت گردی ،پولیس ،قانون جیسے الفاظ کے مطالب کا بھی علم نہیں ۔انہیں
تو یہ بھی پوری طرح احساس نہیں کہ ان کے ماں باپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان سے
بچھڑ گئے ہیں ۔اور آنے والی زندگی ان کے لیے کتنے مصائب کا سمندر لانے والی
ہے۔یہ بیٹیاں اپنی ساری زندگی کے ہر اس لمحے میں مرتی رہیں گی۔ جب جب ان کے
سامنے اپنے والدین کے مظلومانہ قتل کا منظر آیا کرے گا جو انہوں نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا ہے۔یہ سب سوچ سوچ کر میری دیگر لاکھوں درد دل رکھنے والے
پاکستانیوں کی طر ح چند راتیں بہت قرب میں گزری ہیں اور دل خون کے آنسو
روتا رہا ہے ۔اس حقیقت سے کوئی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے ملک میں جنگل کا
قانون رائج ہے ۔نہیں شائد وہاں بھی کوئی قانون تو ہے ۔ہمارے ملک میں تو
کوئی قانون ہی نہیں ہے ۔آئے روز دل دہلا دینے والے واقعات پڑھ پڑھ کر ہم
اجتماعی طور پر اتنے بے حس ہو چکے ہیں جس کی مثال کہیں ملنا ناممکن ہے ۔اس
سے زیادہ پستی کیا ہو گی جب چار سال کی بچی کا ریپ ہو اور مزے لے کر بمع
ساز کے چہکتی آواز میں ملک بھر کے چینل نشر کریں ۔جب بچوں کے سامنے بلا کسی
ثبوت و قصور کے ملک کے محافظ ان کے والدین اور بہن و بھائی کو گولیوں سے
بھون دیا جائے ۔ماڈل ٹاؤن اور سانحہ ساہیوال جیسی پولیس گردی کی بد ترین
مثال ملنا ممکن نہیں ۔ان پولیس والوں کے کیا بچے نہیں ہیں ۔ اتنے ظالم اور
بے رحم محافظ جن کے دل پتھر نہیں اس سے بھی سخت ہو چکے ہیں ۔ان معصوم بچیوں
کا اب کون خیال رکھے گا ۔ان کا ڈرکیسے ختم ہو پائے گا ۔ڈر اپنے محافظوں سے
اپنی پولیس سے ،اپنے ملک کے قانون سے ۔وہ پوری زندگی کیسے جی پائیں گی ۔یہ
دکھ پوری زندگی ان کے ساتھ رہے گا ۔
مقتول محمدخلیل اپنے بیوی بچوں سمیت کارپرسوارلاہورسے اپنے عزیزرضوان کی
شادی میں شرکت کیلئے بوریوالا کے نواحی گاؤں293۔ای بی جارہاتھاجب وہ
قادرآبادساہیوال کے نزدیک پہنچے توتعاقب کرتی پولیس نے ان کی
کارپراندھادھندفائرنگ کردی ۔فائرنگ کے نتیجہ میں محمدخلیل اس کی بیوی نبیلہ
بی بی،13سالہ بیٹی اریبہ اورکارڈرائیور ذیشان موقع پرہی ہلاک ہوگئے۔کارمیں
سوارمحمدخلیل کا11سالہ بیٹابھی فائرلگنے سے زخمی ہوگیاجبکہ دو بچیاں منیبہ
اور ہادیہ معجزانہ طورپرمحفوظ رہیں۔اس سانحہ کا جب ورثا کو علم ہوا تو
مقتولین کے ورثاء اورعلاقہ کے سینکڑوں مشتعل افرادنے شدیداحتجاج کرتے ہوئے
لاہورملتان روڈکواڈاماناموڑپررکاوٹیں کھڑی کرکے بلاک کردیا۔اہل علاقہ کا
کہنا ہے کہ فائرنگ میں جاں بحق افراد کوتمام محلے دار جانتے ہیں، وہ شریف
لوگ تھے۔ جاں بحق افراد محلے میں 35سالوں سے رہائش پذیر ہیں۔مقتولین افراد
کے ورثاء کے گھروں میں قیامت کا منظر ہے۔میڈیا سے پتہ چلا ہے کہ خلیل کی
چونگی امرسدھو میں پرچون کی دکان ہے۔
سانحہ ساہیوال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جس ڈھٹائی سے حقائق کو
جھٹلاتے ہوئے قلابازیاں کھائی ہیں اس نے اس سانحہ کو مزید مشکوک بنا دیاہے
۔مزید یہ کہ اس جعلی پولیس مقابلے کے بعد پولیس کی ہائر اتھارٹی نے میڈیا
پر گمراہ کن رپورٹیں اور بیانات جاری کیے ہیں۔مطلب یہ کہ قانون نافذ کرنے
والے ادارے اپنے اہلکاروں کو بچانے کی شدید کوشش کریں گے ۔ یہ تفتیش کرنے
والی جے آئی ٹی سے انصاف کی امید اب عوام کو نہیں ہے ۔کیونکہ یہ لوگ قانون
کی گرفت میں نہیں آتے ۔ اگر آ بھی جائیں تو ان کے سیاسی آقا اور پولیس کے
بڑے افسران انہیں بچالیتے ہیں۔ابتدا میں پولیس نے بتایا کہ یہ لوگ اغوا کار
تھے اور ہم نے ان سے 3بچے بازیاب کرائے ہیں۔یعنی بچوں کے والدین کو مار کر
ان کو بازیاب کروایا ہے ۔بعد میں پولیس والوں نے کہا کہ یہ لوگ دہشتگرد تھے
انہوں نے شدید مزاحمت کی ہمارے اوپر گولیاں چلائیں اور ان کی گاڑی سے اسلحہ
اور خودکش جیکٹس وغیرہ برآمد ہوئی ہیں۔ ترجمان سی ٹی ڈی نے مارے جانے والوں
کا تعلق کالعدم تنظیم ، داعش ،سے جوڑ دیا ۔اور کہا کہ سی ٹی ڈی نے اپنے
تحفظ کے لیے جوابی فائرنگ کی، جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو دو خواتین سمیت 4
دہشت گرد ہلاک پائے گئے جبکہ 3 دہشت گرد موقع سے فرار ہوگئے۔
لیکن عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہم موقع پر موجود تھے ۔ان کا بیان سی ٹی ڈی
کے ترجمان سے یکسر مختلف ہے ۔انہوں نے بتایا کہ مقتولین کی طرف سے کسی قسم
کی کوئی مزاحمت نہیں کی گئی نہ کوئی گولی چلائی گئی اور تلاشی کے دوران ان
کی گاڑی سے کپڑے گھریلو سامان اور مٹھائی نکلی تھی ۔عینی شاہدین اور پولیس
کی گولیوں نے بچ جانے والے مقتول کے گیارہ سالہ بیٹے کا بیان یکساں ہے ۔اس
نے بیان دیا ہے کہ ’’ہم سب بوریوالہ میں اپنے چاچا رضوان کی شادی میں جا
رہے تھے ۔پاپا نے پولیس کی بہت منتیں کیں کہ آپ پیسے لے لیں لیکن فائرنگ نہ
کریں لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی اور فائرنگ کر دی۔ ‘‘اسی طرح مقتول کے
بھائی نے بتایا کہ ’’ہم سب اپنی اپنی گاڑیوں میں آگے پیچھے جارہے تھے، میں
نے کچھ دور جا کر بھائی کو کال کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اوکاڑہ بائی پاس
کی طرف جا رہے ہیں۔میرے والد اور ایک بھائی پہلے گاؤں پہنچ گئے۔ انہوں نے
ہمیں بتایا کہ خلیل بھائی کا نمبر نہیں مل رہا لہٰذا آپ راستے میں ان کو
دیکھتے آئیں۔ ہم نے بھی ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو
سکا۔ساہیوال بائی پاس پر آ کر ہم کھڑے ہوئے، ہمیں وہاں بھی کہیں خلیل کی
گاڑی نظر نہیں آئی جس پر میں نے چونگی امر سدھو میں اپنے چھوٹے بھائی کو
فون کیا۔کچھ دیر کے بعد مجھے میرے بھائی نے بتایا کہ ٹی وی پر ان کی خبر چل
رہی ہے کہ فائرنگ میں ان کی ہلاکت ہو گئی ہے۔‘‘
معصوم بچوں کے والدین کو انکی نظروں کے سامنے ناحق قتل کیاگیا ہے تو اس
لرزہ خیز قیامت اور درندگی کا حساب ان پولیس والوں ،افسروں کو سزا دلانا
عدلیہ ،وزیر اعلی ،وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے ۔مدینے کی ریاست میں فرات
کنارے مرنے والے کتے کے بارے میں خلیفہ وقت جوابدہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے
آئین کی رو سے بھی افراد کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے
۔یہ ان کا فرض ہے کہ قاتلوں کو سزا دلوائیں۔وزیر اعظم عمران خان اکثر کہتے
ہیں کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ ملک قائم نہیں رہتے۔وزیر اعظم صاحب اب
مقتولین کے معصوم ورثا کو انصاف دلائیں ۔جے آئی ٹیاں ،معطلیاں،مذمت ،آہنی
ہاتھوں سے نپٹنا،دکھ کا اظہارکرنا،ورثاکو پیسے دینا،چند دن خبریں اور
تصویریں۔یہ تو سدا سے ہوتا آیا ہے ۔
کیا اب کے بھی ایسا ہی ہوگا ۔بہت سے سوالات پیدا ہو چکے ہیں ۔جن کا جواب
قوم کو جلد مل جائے گا ۔جے آئی ٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔اب سب کی نظریں
اس رپورٹ پر لگی ہیں ۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کو
کیا انصاف مل پائے گا ۔انصاف کا مطلب ہے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے جیسا
انہوں نے کیا ہے ۔یہ ہی اسلام کا قانون عدل ہے ۔ایسی ایک قانون پر عمل نہ
ہونے کے سبب ملک میں آئے روز ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جب سے یہ
سانحہ ہوا ہے میڈیا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔یہ طوفان کب تک رہے گا
۔ایک اور بھیانک حادثہ ہو گا۔ اس حادثے سے بھی بڑا سانحہ ۔سب کی توجہ اس
جانب لگ جائے گی ۔ایسا ہی ہوگا ۔ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔ جس وجہ سے ایسا ہوا
ہے اور ہوتا رہے گا ۔لیکن کب تک ،آخر کب تک ظالموں کی رسی دراز رہتی ہے
۔انصاف اب نہیں تو کب ؟یہاں نہیں تو روز حساب ،قیامت کے دن اس سانحہ کا
حساب دینا ہوگا۔ |