کردار بھی ویسے ہی تھے، کہانی بھی تقریباً وہی۔ پنجاب کے
دارالحکومت لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں گھریلو ملازمہ عظمٰی بی بی کو سر
پر کفگیر کا وار کر کے قتل کر دیا گیا۔
ان کی عمر 16 برس تھی اور ان کی مبینہ قاتل اس گھر کی مالکن نکلیں جہاں وہ
ملازم تھیں۔
|
|
عظمیٰ کے خاندان کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ کی ملازمت کے دوران انھیں کہیں آنے
جانے کی اجازت نہیں تھی۔ حالات کب اس نہج تک پہنچے، گھر والوں کو کچھ علم
نہیں۔ اس دوران عظمٰی پر کیا گزری، ان کی لاش دیکھنے تک وہ یہ بھی نہیں
جانتے تھے۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لاہور ہی میں گزشتہ برس
گیارہ سالہ سمیرا کو ان کی مالکن نے استری سے جلا دیا تھا۔ دو بہن بھائی
اقرا اور زمان کے سر منڈوا دیے گئے اور اس سے قبل سویرا کا معاملہ سامنے
آیا تھا جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سیڑھیوں سے دھکا دیا گیا۔ وہ
معذور ہوئیں اور آٹھ ماہ بعد اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔
فیصل آباد کی 10 سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کا مقدمہ تو ملک بھر میں توجہ کا
مرکز رہا تھا۔ اُن پر تشدد کے الزامات میں ایک جج اور ان کی اہلیہ کو عدالت
کی طرف سے زیادہ سے زیادہ ممکن سزا دی گئی تھی۔ تاہم اس سب کے باوجود
گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات رکنے میں نہیں آ رہے۔
ماہرین کا ماننا ہے ایسے واقعات کی وجوہات کا تدارک نہیں کیا جا رہا۔ عظمٰی
اس کی حالیہ مثال ہیں۔
عظمٰی کے ساتھ کیا ہوا؟
اقبال ٹاؤن پولیس کے مطابق انھیں عظمٰی کی لاش رواں ماہ کی 18 تاریخ کو
اقبال ٹاؤن میں واقع ایک گندے نالے سے ملی۔
پولیس نے ان کے قتل کے الزام میں ماہ رخ نامی ایک خاتون، ان کی بیٹی اور
نند کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔
عظمٰی بی بی گزشتہ آٹھ ماہ سے ماہ رخ کے گھر پر ملازمہ تھیں۔ لاش ملنے سے
ایک روز قبل ماہ رخ نے تھانے میں درخواست دی تھی کہ عظمٰی ان کا زیور چرا
کر فرار ہو گئی ہیں۔ تاہم سی سی ٹی وی کیمروں نے کچھ اور ہی دکھایا۔
|
|
پولیس کو پتہ چلا کہ ماہ رخ اور دیگر دو گرفتار خواتین نے انھیں قتل کرنے
کے بعد لاش کو رات کے اندھیرے میں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر نالے میں پھینک
دیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزمان کی نشاندہی پر ہی لاش دریافت ہوئی تھی۔
ایس پی انویسٹیگیشن اقبال ٹاؤن شازیہ سرور نے بی بی سی کو بتایا کہ پورسٹ
مارٹم رپورٹ کے مطابق ’بچی کی موت سر پر چوٹ لگنے کے تین منٹ کے اندر ہی ہو
گئی تھی۔‘
عظمٰی کو کیوں مارا گیا؟
ملزمہ ماہ رُخ نے اپنے اعترافی بیان میں پولیس کو بتایا کہ انھوں نے ’عظمٰی
کو ان کی بیٹی کے کھانے میں سے چکھتے ہوئے پکڑا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے
سٹیل کا ہنڈیا پکانے والا چمچ اس کے سر پر دے مارا۔‘
پولیس کے مطابق یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا عظمٰی کو اس سے قبل بھی تشدد کا
نشانہ بنایا گیا تھا یا نہیں اور اس کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی
لاہور کی تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے۔
تاہم سوشل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے اور
اگر یہ درست ہے تو عظمٰی کو واضح طور تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا جا
سکتا ہے۔
ایس پی انویسٹیگیشن اقبال ٹاؤن شازیہ سرور کا کہنا تھا کہ ’ایسی کوئی ویڈیو
پولیس کو نہیں ملی۔ عظمٰی کی لاش نالے میں رہنے کی وجہ سے خراب ہو چکی تھی۔‘
ویڈیو میں کیا ہے؟
ویڈیو میں زمین پر بچھی ایک چادر پر عظمٰی سے مشابہت رکھتی ایک بچی بیٹھی
ہے۔ اس کے گال بچکے ہوئے، بال اڑے ہوئے، آنکھیں اور ہونٹ سوجے ہوئے ہیں۔
ایک خاتون اس کو پانی پلانے اور ڈبل روٹی کا نوالہ کھلانے کی کوشش کر رہی
ہے۔
|
|
بچی اس قدر لاغر ہے کہ پانی اس کے منہ سے گر جاتا ہے اور نوالہ چبانا محال
ہو رہا ہے۔
خاتون کا چہرہ ایک زاویے سے آدھا نظر آتا ہے تاہم بظاہر اس کی مشابہت مرکزی
ملزمہ سے لگتی ہے۔ پس منظر میں دیگر آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں جن میں ایک
دوسری خاتون کے ہنسنے کی آواز بھی شامل ہے۔
ایک مقامی ٹی وی چینل کے مطابق انھیں یہ ویڈیو واقعہ کے بعد موصول ہوئی اور
اس میں نظر آنے والی بچی عظمٰی ہی ہیں۔
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ایسی کوئی ویڈیو ملزمان کے موبائل فون سے
نہیں ملی تھی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ ویڈیو کس نے بنائی اور کیسے باہر آئی؟
ویڈیو بنانے والا اگر باہر سے تھا تو اس نے بچی کی حالت کے حوالے سے متعلقہ
حکام کو متنبہ کیوں نا کیا؟
اگر ویڈیو کو درست مان لیا جائے تو اس سے انتہائی خوفناک حقیقت واضع ہو رہی
ہے۔
عظمٰی نے کھانا اس لیے چکھا کہ وہ بھوکی تھیں اور کیا اس پاداش میں انہیں
قتل کر دیا گیا؟
یہاں تک پہنچنے میں عظمٰی کا کتنا ہاتھ تھا؟
عظمٰی بی بی کے گھر پر انتہائی سوگ کا سماں ہے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں
دوسرے نمبر پر تھیں۔ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ ان کے والد محمد
ریاض ایک مارکیٹ میں سکیورٹی گارڈ ہیں۔
عظمٰی بی بی کے پھوپھی زاد بھائی محمد جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ عظمٰی
کو محض 2500 روپے ماہانہ دیے جاتے تھے۔ ’جب پیسے لینے جاؤ تو دیوار کے اوپر
سے پھینک دیے جاتے تھے۔ عظمٰی سے ملنے نہیں دیتے تھے، کہتے تھے وہ بچوں کے
ساتھ گھر سے باہر گئی ہے۔‘
|
|
ماہ رخ کی ملاقات عظمٰی کے والد سے اسی مارکیٹ میں ہوئی تھی جہاں وہ کام
کرتے ہیں۔ انہوں نے محمد ریاض سے عظمٰی کو ملازمت پر رکھنے کی بات وہیں طے
کی تھی۔
بچوں پر اس قدر تشدد کون کرتا ہے؟
جلانا، فاقہ زدہ رکھنا، چھڑیوں سے مارنا، سیڑھیوں سے پھینکنا، اس قسم کا
تشدد بچوں پر کب اور کیوں کیا جاتا ہے؟
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق
ایک صحت مند ذہن کا انسان ایسا عمل نہیں کر سکتا۔ ’ایسے افراد خود نفسیاتی
مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات پورا خاندان ایسے مسائل سے دوچار ہو
جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ جن گھروں میں بچوں پر تشدد ہوتا ہے وہاں
تشدد کرنے والے کو روکا نہیں جاتا اور ایسا برتاؤ کرنے والے افراد کا رویہ
ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
’نہ خود انھیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط کر رہے ہیں اور نہ ہی ان
کے ارد گرد موجود افراد کو۔‘
ڈاکٹر فرح گزشتہ کئی برسوں سے بچوں پر تشدد کے موضوع پر تحقیق کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ دورِ حکومت میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے پنجاب میں ایک قانونی مسودے
کی تیاری میں بھی ان کی رائے لی گئی تھی۔
ان کا ماننا ہے کہ ایسے افراد زیادہ تر بائی پولر ڈس آرڈر جیسی کیفیت کا
شکار ہوتے ہیں۔ اس بیماری میں موڈ تیزی سے بدلتا رہتا ہے۔
’کبھی وہ سخت غصے میں آ جاتے ہیں، انھیں خود پر ترس آتا ہے، کبھی ان کو
لگتا ہے کہ لوگ ان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے وہی درست ہیں
اور باقی سب غلط۔۔‘
انھوں نے کہا ’انسانی نفسیات ہے کہ غصہ کمزور پر ہی نکالا جاتا ہے۔ گھریلو
ملازمین ایسی کسی بھی صورتحال میں پہلا اور آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔‘
ڈاکٹر فرح ملک کے خیال میں بچوں پر ایسا تشدد کرنے والے افراد کو مدد کی
ضرورت ہوتی ہے تاہم پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی پائی جاتی ہے اور
انھیں روکنے کے لیے مناسب قوانین بھی موجود نہیں۔
’بچے ریاست کی ذمہ داری ہیں‘
پاکستان میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے صوبہ پنجاب میں سنہ 2004
میں ’پنجاب ڈیسٹیچیوٹ اینڈ نِگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ‘ یعنی نظر انداز کیے گئے
ہوئے بچوں کے لیے قانون منظور کیا گیا تھا۔
اسی قانون کے تحت کئی برس بعد بچوں کی نگہبانی کے مراکز یعنی چائلڈ
پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر سینٹرز بھی قائم کیے گئے۔
تاہم پے در پے رونما ہونے والے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ یہ مراکز گھروں میں
کام کرنے والے بچوں کو تشدد سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
ڈاکٹر فرح ملک کا ماننا ہے کہ ’ڈیسٹیچیوٹ‘ اور ’نِگلیکٹڈ‘ دو مختلف چیزیں
ہیں۔ ’آپ ٰزیادتیٰ کی بات کیوں نہیں کرتے۔ گھر سے بھاگ جانے والے بچوں میں
بھی بڑا مسئلہ زیادتی کا ہے۔"
قانون میں دی گئی تین برس کی سزا اور 50 ہزار جرمانہ بھی اس جرم کو نہیں
روک پا رہا ہے۔
ڈاکٹر فرح ملک کے مطابق دنیا کے تہذیب یافتہ معاشروں میں ’بچے ریاست کی ذمہ
داری ہوتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ترمیمی مسودے میں انھوں نے یہ تجویز دی
تھی کہ پاکستان میں بھی اس بات کو یقینی بنایا جائے۔
بچوں کی حفاظت کے لیے امریکہ میں 911 کی طرز پر پاکستان میں بھی ایک ہیلپ
لائن قائم کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔
پھر حکومت بدل گئی۔ اب وہ مسودہ کہاں ہے اور اس کا کیا بنے گا، ڈاکٹر فرح
کو نہیں معلوم۔
تب تک کوئی اور عظمٰی سامنے نہیں آئے گی وہ یقین سے نہیں کہہ سکتیں۔
|