ہاجرہ بیگم کہتی ہیں ریپ کے بعد میں اپنے آپ کو بچانے میں
کامیاب رہی لیکن وہاں بہت ساری لڑکیاں ہیں جن کا ریپ کے بعد قتل کیا گیا
اورمیری جیسی بہت سی خواتین نے فوج سے علاج کے لیے کہا، ہم نے خاص طور پر
وہ دوا مانگی جس سے ہم حاملہ نہ ہو سکیں۔ لیکن ہمیں نہیں دی گئی۔پانچ بچوں
کی ماں حسن آرا نے بتایا کہ ان کے پانچ بچے ہیں۔ آبائی گاوں میں برمی
فوجیوں نے گھر پر دھاوا بولا اور تین فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ
بنایا۔حسن آراء نے روتے ہوئے کہا کہ ان کی ایک بیٹی کو ان کی آنکھوں کے
سامنے زندہ آگ میں پھینک دیا گیا دو بچے لاپتہ ہیں مجھے بندوقوں کے بٹ سے
مارا بھی گیا۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنے دو بچوں کے ساتھ بنگلہ دیش
پہنچی۔میانمار کے فوجیوں نے ایک بچی کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا،
جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی تھی۔ تب اس کی عمر صرف تیرہ برس ہی تھی۔
بنگلہ دیش میں قائم مہاجر کیمپوں میں ایسی متعدد روہنگیا لڑکیاں اور خواتین
ہیں، جنہیں میانمار کے فوجیوں کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا
تھا اور وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔اب دس ماہ بعد کئی ایسی ہی روہنگیا لڑکیاں
بچوں کو جنم دی چکی ہیں۔ تیرہ سالہ یہ مہاجر بچی بھی انہی میں شامل ہے، جو
ریپ کے بعد بنگلہ دیش فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔میانمار کی وحشی فوج
نے راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھااور مسلم
نسل کشی کے ساتھ ساتھ برمی مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کی بے حرمتی کو بطور
جنگی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے ان وحشی درندوں نے نو سال سے دس سال کی
کم عمر مسلمان بچیوں کا بھی ریپ کیاایسے انسانیت سوز مظالم پر نہ آسمان گرا
نہ زمین پھٹی۔انہی لرزہ خیز واقعات کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی روہنگیا
خواتین معاشرتی اور نفسیاتی سطح پر مسلسل ایک دباؤ میں ہیں۔ حاملہ ہونے
والی ایسی متعدد خواتین نے مہاجرکیمپوں میں ملنے والی سستی مانع حمل کی
گولیاں کھا کر اپنا بوجھ ہلکا کیا اور درجنوں اس کشمکش میں مبتلا رہیں کہ
بودھ فوجیوں کے ان بچوں کا کیا کیا جائے۔برطانوی اخبار ’گارجین‘ کی ایک
رپورٹ میں بتایا گیاہے برما کی فوج کی وحشت، بربریت اور درندگی کا نشانہ
بننے والی روہنگیا نسل کی مسلمان خواتین میں پچاس فی صد کم عمر بچیاں
ہیں۔انسانی حقوق گروپ کے کارکنوں نے برما کی فوج کی جنسی ہوس ناکی کا شکار
خواتین سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے تو انہوں نے
تار تار کیے گئے اپنے کپڑے دکھائے اور انہیں اپنی عزت وناموس کے تحفظ کی
ضرورت ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ برما کی فوج کے وحشی درندے کس بے رحمی کے
ساتھ ان کی عزتوں کے ساتھ کھیلتے رہیں۔ رپورٹ کے مطابق میانمارکے فوجی
درندوں نے بوڑھی عورتوں کو بھی گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔ جبکہ برمی فوج
فرار ہونے والی خواتین کو وحشیانہ انداز میں گینگ ریپ کا نشانہ بنانے کے
بعد گولیاں مار کر قتل کردیتی ہے۔ ہزاروں خواتین کی اجتماعی آبروز ریزی کی
گئی۔ ایک اور مسلمان لڑکی فاطمہ درد ناک داستان نے ہرآنکھ اشکبار کردی او ر
اس نے انکشاف کیا کہ اسے اغواء کے بعد برمی فوج کے جس کیمپ میں رکھاگیا تھا،
وہاں 150مسلمان لڑکیوں کو اغواء کرنے کے بعد ریپ کیاگیا اور 90 مظلوم
خواتین نے برمی فوجیوں کے ناجائز بچوں کو جنم دیا۔برمی فوجیوں کی درندگی
اور ان کی ہوس کا شکار ہونے کے بعد وہ نہ جانے کس برمی فوجی کے بچے کی ماں
بنی تھی کیونکہ اس جیسی بے بس اور لاچار مسلمان لڑکیاں ہر ماہ کسی نہ کسی
برمی فوجی کے بچے کی مائیں بن رہی تھیں۔فاطمہ کو جب انسانی حقوق کی ایک
تنظیم نے بازیاب کرایاتو اس وقت تک اس کیمپ میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو
بن بیاہی کم سن مائیں ،نوے بچوں کو جنم دے چکی تھیں،ان بچوں کو بدھ بھکشو
گود میں لئے اپنی مذہبی تعلیمات دے رہے تھے۔فاطمہ رہائی کے بعد تھائی لینڈ
پہنچا دی گئی لیکن اسکی اذیتوں کا سفر ختم نہیں ہوا۔اسکو جسم فروشی کے اڈے
پر پہنچا دیا گیا۔صرف ایک فاطمہ ہی نہیں اس جیسی ان گنت کہانیاں میانمار کی
زمین پر بکھری پڑی ہیں جو مسلم امہ کے لئے ایک سبق ہے کہ اب بھی وہ متحد نہ
ہوئے اور اسی طرح طا غوتی قوتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے رہیں تو وہ وقت
دور نہیں جب خد انخواستہ کرہ ارض پر کسی بھی مسلمان عورت کی عزت محفوظ نہیں
رہے گی روہنگیا مسلمانوں کی بیٹیوں کے ساتھ میانمار کی سرزمین پرظلم ہورہا
ہے۔ کشمیر ، فلسطین میں مسلمان عورتوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم کر رکھاہے
کہ خو فناک جنسی تشدد سے حیوان بھی شرما جا ئے ۔بنگلہ دیش میں مہاجر کیمپوں
میں روہنگیا مسلمانوں کا علاج کرنے والے اقوام متحدہ کے ڈاکٹروں اور طبی
ماہرین نے بھی برمی مسلح افواج کی جانب سے روہنگیا خواتین پر جنسی تشدد کی
تصدیق کی ہے۔اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم)
کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہوں نے سینکڑوں خواتین کا اعلاج کیا جن کے جسموں
پر جنسی حملوں کے خوفناک زخم تھے۔بعض عورتوں کے نازک اعضا پر بندوق داخل
کرنے کی انسانیت سوز کوشش کی گئی۔ ایک ڈاکٹر کے مطابق ایک خاتون کے ساتھ کم
از کم 7 برمی فوجیوں نے زیادتی کی اور وہ انتہائی کمزور اور صدمے کی کیفیت
میں تھی۔ اقوام متحدہ کے ڈاکٹرز اور امدادی کارکن عموما کسی ملک کی مسلح
افواج کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں پر بات نہیں کرتے لیکن روہنگیا خواتین کے
ساتھ ہونے والی جنسی درندگی کا مظاہرہ اتنا سنگین ہے کہ وہ بھی بولنے پر
مجبور ہوگئے۔ امدادی تنظیموں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادتی کا شکار
عورتوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ انہیں جان بچانے والی طبی امداد فراہم
کرنی پڑی۔ ان خواتین کے علاج کے دوران گینگ ریپ سے لے کر تشدد کے مختلف
طریقوں کی نشاندہی کی گئی ۔ ویمن لیگ آف برما نامی تنظیم کے مطابق ان کے
پاس 100 ایسے کیس آئے ہیں جن میں فوج نے ریپ کو ہتھیار کے طور پر استعمال
کیا ہے۔ ان کیسوں میں کچھ متاثرہ بچوں کی عمر آٹھ برس ہے۔ریپ کے واقعات میں
سے آدھے گینگ ریپ تھے اور 28 خواتین کو یا تو مار دیا گیا یا پھر وہ زخموں
کے باعث چل بسیں۔برما کی فوج کے ظلم کا شکار ایک 32 سالہ عورت سعیدہ خاتون
نے بتایا کہ گاوں پر حملہ کرنے والے فوجی مجھے گن پوائنٹ پر ایک میدان میں
لے گئے جہاں انہوں نے تقریباً 30 خواتین کو اکٹھا کیا ہوا تھا۔ فوجیوں نے
خوش شکل 15 لڑکیوں کو الگ کیااور نامعلوم جگہ پر لے گئے جبکہ باقی 15
خواتین کو اسی صحن میں زیادتی کا نشانہ بناگیا۔ نور حسین نے بتایا برما کے
فوجیوں نے بدھوں کے ساتھ ان کے گاوں پر حملہ کیا اور 100 سے زائد خواتین کو
زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد 25 خواتین کو قتل کردیا گیا جبکہ 850
گھر اور 40 مرد زندہ جلا دیئے گئے۔ نور نے بتایا کہ لوگوں کو گولیاں مار کر
قتل کرنے‘ زندہ جلانے کے ساتھ ساتھ چھریوں سے ان کے گلے کاٹ کر بھی قتل کیا
گیا۔جنسی زیادتی کا شکار بننے والی ایک برمی مسلم خاتون نے بتایاکہ زیادہ
تر روہنگی عورتوں کے ساتھ برمی فوجی اہلکاروں، برمی باشندوں اور ناتالا (برما
کے نئے باشندے)نے آبروریزی کی۔ اس وقت جب تمام روہنگی مردوں کو فوجی
اہلکاروں نے ایک جگہ جمع کر رکھا تھا اس دوران ایک دستے نے گاؤں میں داخل
ہوکر گھروں پر دھاوا بولا ، عام گھریلو اشیاء تباہ کردی، تمام قیمتی چیزیں
لوٹ لیں اور خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا۔ میانمار کی سکیورٹی فورسز
مسلمان خواتین کو ایذائیں پہنچاتی ہیں اور انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا
جاتا ہے۔ بہت سی مسلمان خواتین کو زور زبردستی اٹھا لیا جاتا ہے اور جنسی
زیادتی کے بعد انہیں واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بے کس
خواتین ساری عمر حقارت آمیز زندگی بسر کرتی ہیں۔ شادی شدہ عورتوں کی
صورتحال مزید بدتر ہے انہیں نامعلوم مقامات پر لے جاکر ان سے بیگار لیا
جاتا ہے اور کسی قسم کی مزدوری نہیں دی جاتی، بعض اوقات تو بہت سی خواتین
کبھی بھی گھر لوٹ کر نہیں آتیں۔ بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپ میں پہنچنے
والی 20سالہ لڑکی حبیبہ اور اس کی بہن کی دردناک کہانی نے دنیا کو ہلا کر
رکھ دیا تھا۔ برما کے بارڈر سے چند کلومیٹر دور بنگلہ دیش میں قائم اس پناہ
گزین کیمپ میں گفتگو کرتے ہوئے حبیبہ کا کہنا تھا کہ ’’برمی فوج ایک ہمارے
گاوں میں داخل ہو گئی۔ فوجیوں نے ہمارے باپ سمیت درجنوں مردوں کو قتل کر
دیا اور گھروں میں گھس کر خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ کچھ فوجی
ہمارے گھر میں بھی گھس آئے۔ انہوں نے مجھے اور میری بہن، 18سالہ سمیرا کو
بیڈ کے ساتھ باندھ دیا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ اس کے بعد
انہوں نے ہمارے گھر کو آگ لگا دی اور جاتے ہوئے ہمیں وارننگ دی کہ اگر ہم
انہیں دوبارہ یہاں نظر آئے تو انہیں بھی قتل کر دیا جائے گا۔‘‘سمیرا کا
کہنا تھا کہ ’’فوجیوں نے ہمارے علاوہ گاؤں کی درجنوں نوجوان لڑکیوں کو
زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘‘ اس واقعے کے بعد دونوں بہنیں اپنے بھائی ہاشم اﷲ
کے ہمراہ برما سے فرار ہو کر اس پناہ گزین کیمپ میں آ گئیں۔ ہاشم اﷲ کا
کہنا تھا کہ ’’یہاں ہم فاقوں سے مر رہے ہیں لیکن اتنا ہی بہت ہے کہ یہاں
ہمیں جان و آبرو کا کوئی خطرہ نہیں ۔ ‘‘ |