سانحہ ساہیوال اور ہم

تحریر: ثناء نوشین
سوشل میڈیا کی دنیا بھی عجب نرالی ہے۔ اگر آپ کے آس پاس کچھ ظلم ہوا ہے، کسی کے ساتھ زیادتی یا حق تلفی کی گئی ہے آپ اس کی وڈیو بنا کر اس وڈیو کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں۔ اب اگر آپ کی وڈیو اچھی بنی ہے اور اس میں کچھ دم ہے تو یقین کیجیے آپ کا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔ بات ہو رہی تھی ساہیوال سانحہ پر تو بات تو سچ ہے ظلم ہوا، بے حد ہوا، بلا سبب ہوا اور وڈیو بن گئی۔ اب وہ بڑوں کا کہا یاد آتا ہے، ’’بد سے بدنام برا‘‘، جو آدمی برا کام کرتے پکڑا گیا وہی گناہگار ہے۔ لعنت کا باعث اور جو لوگ پردہ ڈال کر چوری کرتے بہتریں قاضی بن جاتے۔ ایک دور تھا لوگ غلط کام چھپ کر کرتے اور پکڑے جانے پر شرمندہ ہوتے تھے مگر اب تو نظام ہی الٹا ہے۔ سیدھی سی بات تھی ذیشان اور محمد خلیل کا قتل ہوا، شاید ہلاکت ہوئی، یا شاید شہادت۔ اصل ماجرا کیا تھا وہ صرف میرا رب جانتا ہے۔ اب جب یہ وڈیو آئی لوگوں کا ردعمل آیا، حکومت وقت کو چاہییے تھا فوری انکوائری کمیشن بنانے کا حکم دے دیتی مگر جو غلطی ہوئی وہ یہ کہ منصف ہی آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔

چار بچے یتیم ہو گئے روز ہزاروں ہوتے ہیں مگر ان چار میں سے تین بچوں نے اپنے باپ کو گڑگڑاتے دیکھا ہے، زندگی کی بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ ان کے باپ کو زندگی تو نہ ملی مگر بچوں کو سبق مل گیا۔ یہ سبق ایک روز یہ بچے معاشرے کے منہ پر تھپڑ کی مانند ماریں تو حیرت نہیں ہونا چاہییے۔ مسئلہ وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے مسئلہ یہ ہے کہ کوئی قانون پاس کیا جائے کہ باپ جتنا بھی بڑا مجرم ہو، اس کی اولاد سے اس کو دور کرکے کیفر کردار تک پہنچائیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا ٹارگٹ جرم ختم کرنا ہے ایک مجرم مار کر تین مجرم پیدا کرنا ہرگز نہیں۔ یقینا انکوائری کمیشن بیٹھے گا۔ سوال جواب ہوں گے ویسے بھی سوشل میڈیا کے شہنشاہوں نے تو عدالت لگا کر سوال جواب کر کے جرم کا تعین بھی کر بیٹھے۔ مگر رکیے اگر سوشل میڈیا پر سب ہونا ہے تو عدالت کی کیا ضرورت؟ یہ جو سوشل میڈیا کی عدالت ہے یہ اصل عدالت کے سامنے پانی بھرتی ہے۔ یہاں ثبوت گواہ کچھ نہیں چاہیے چاہییے تو فقط چرب زبانی چاہیے۔ آپ کی زبان آپ کے الفاظ میں چکنائی چاہیے جس سے آپ کے الفاظ زبان کے راستے آگے والے کے دماغ میں پھسل کر جا لگیں ۔ اس لیے حقیقی فیصلے کا انتظار کیجیے اور اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے اس کو عدالت تک پہنچائیے آپ وکیل ہیں تو آپ بچے کے گھر والوں کو مدد فراہم کیجیے۔

مگر خدارا جب آپ مذحمتی مارچ یا جلسے کر رہے ہیں اپنی پارٹی کو نکال کر کیجیے ن لیگ کی طرف سے مذاحمتی مارچ، ق لیگ کی طرف سے مذاحمتی مارچ، پیپلز پارٹی کی طرف سے مذاحمتی مارچ، جماعت اسلامی کی طرف سے مذاحمتی مارچ اور اﷲ کے بندو بچے یتیم ہو گئے۔ آپ کو سیاست چمکانے کی پڑی ہے۔ کیا آپ سب کو بچے کا غم ہے اگر ہے تو ذاتی اختلاف بھلا کر زندہ قوموں والا مارچ کیجیے۔ جب کراچی میں مارچ کی جلسے کی کال آئے ہندو مسلم سکھ عیسائی جیالے۔ ن لیگی، یوتھ ونگ سب مل کر ایسا مارچ دین پر امن کہ دنیا دیکھے صرف دو شہروں کا مارچ ہی کافی ہے گر پورا شہر بنا پارٹی مفاد کے نکلے مگر ایسا ہو گا نہیں۔ ہمیں بچے یا اسکے والد سے غرض نہیں ہمیں پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے ہمیں میلہ لگانا ہے دل کی خوشی چاہیے ہمیں چاہیے اس شہر میں پہلا مذاحمتی بیان میرا ہو کل ووٹ لیتے وقت جتانا بھی تو ہے میں فلاں فلاں وقت سب سے پہلے آگے آیا تھا۔

ہم مردہ قوم ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے شہر کی ایک مصروف شارع پر ساہیوال سانحہ پر مذاحمتی مارچ تھا۔ 4 بجے چار بج کر 30 منٹ پر میرا وہاں سے گزر ہوا پندرہ بیس مرد بلکہ لڑکے ٹھہرے تھے۔ روڈ پر زندگی رواں تھی لوگ آ جا رہے تھے کوئی نہ تھا جو رکتا تعظیم میں دو منٹ اتر کر ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا اور اپنے کام پر چلا جاتا۔ ابھی پچھلے ہفتے انھی بچوں نے فیسٹیول کی تیاری کی تھی پورا شہر امڈ آیا تھا۔ بیوی بچوں کے ساتھ، ہم تماشائی قوم ہیں ہمیں کھیل تماشے میں بلائیے صاحب یہ اصلاحات کے کام ہم سے نہیں ہوتے ہم تماشائی قوم ہیں۔ تبھی تماشہ بن رہے کیا کہا تبدیلی مانگتے ہیں آپ کی منہ اور مسور کی دال آپ ناں اپنا کام کیجیے اور اگلے فیسٹیول کا انتظار کیجیے۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1031567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.