یومِ کشمیر اور نوجوان نسل

ہر سال 5فروری کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ چھُٹی ہو گی لیکن یہ چھُٹی کیوں ہوتی ہے اس کی غرض وغایت تو شاید ہم بھول ہی گئے ہیں۔ کشمیری آج بھی اپنی آذادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم اور ہماری حکومت سال بھر میں ایک دن یومِ کشمیر منا کر اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے آذاد ہو جاتے ہیں

ہر سال 5فروری کو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ چھُٹی ہو گی لیکن یہ چھُٹی کیوں ہوتی ہے اس کی غرض وغایت تو شاید ہم بھول ہی گئے ہیں۔ کشمیری آج بھی اپنی آذادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم اور ہماری حکومت سال بھر میں ایک دن یومِ کشمیر منا کر اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے آذاد ہو جاتے ہیں۔کشمیر ی عوام کی قربانیاں ہم سے خراج مانگتی ہیں لیکن ہم وہ خراج دینا نہیں چاہتے۔آج سے تقریباً پانچ سال پہلے مجھے چند دن ایران کے ایک جزیرے کِش میں گزارنے کا موقع ملا۔ وہاں پر ہوٹل کے کمرے عام طور پر شیئرنگ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں اور ایک کمرے میں تقریباًپانچ سے چھ لوگ ہوتے ہیں۔ میرے کمرے میں ایک کشمیری نوجوان بھی تھا۔ وہاں پر اس کی داستا ن سننے کا موقع ملا۔اس کی داستانِ حیات بہت دلخراش تھی ۔ اس کا سارا خاندان ماں باپ ،بہن بھائی،کزنزاور تما م دوست احباب بھارتی مظالم کا شکار ہوکر مارے جاچکے تھے۔ہر ایک کی موت ایک الگ کہانی تھی جو سننے اور سناننے کے لیئے بہت بڑا جِگرا چاہیے۔ داستانِ غم سناتے ہوئے وہ باربا ر آبدیدہ ہوجاتاتھا۔ موت کی تکلیف تو سب کو آنی ہے لیکن تشدد کی موت اور جانوروں جیساسلوک بھولا نہیں جاسکتا ۔مسلمانوں کو چُن چُن کر مو ت کی گھاٹ اتارنا اور اذیت کے نت نئے طریقے سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ سگریٹوں سے جسم کو داغاجانا اور عصمت دری کے واقعات اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے تھے۔ اس کے خاندان کے بچے کھچے افراد کو آدھی رات کو سوئے ہوئے آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔ وہ اپنے والدین کی موت کامنظر نہیں بھول سکتا تھا جن کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا۔پلاس کی مدد سے ان کے ناخن اور جسم کے بال نوچے گئے۔اس کشمیری نوجوان سے مل کر پتہ چلا کہ کشمیر ہم سے کیا چاہتا ہے۔ صرف شوبازی یا حقیقی مدد۔ کشمیر ڈے پر چند ریلیاں نکال کر اور میڈیا میں نپے تُلے بیانا ت دے کر اور چند کھوکھلے نعرے لگا کر ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔ کشمیریو ں کا ساتھ بھی دے دیا ااور بھارت سے تعلقات بھی بحال ہیں۔یعنی سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ لیکن جن پر یہ سب گزرا ہے اور ابھی تک گزر رہا ہے۔ ان حریت پسندوں کا بازو ہم کب بنیں گے۔

جستجو کے مستقل قارئین! اگر آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہو یا اس کا کچھ فی صد ہی ہو تو آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا۔ کیا آپ بھی صرف نعرے لگا کر اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے ۔ ہر گز نہیں۔ زیادہ نہیں کچھ دیر کے لئے ہی اپنے آپ کو مظلوم کشمیریوں کی جگہ رکھ کر سوچئے ۔ جن کا مسلمان ہونا ہی ایک بہت بڑا جرم ہے۔ جن کی بستیاں راتوں رات جلا دی جاتی ہے اور وہ سوئے ہوئے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں ۔ جن کو ٹارچر سیلز میں بند کر کے دنیا سے سب سے انوکھے اور تکلیف دہ عمل سے ٹارچر کیا جاتا ہے۔ جن کو اپنا پیشاب تک پینا پڑتاہے۔ کہاں ہے UNOاور اس کے ذیلی ادارے اور اربو ں کھربوں کی گرانٹ تو کھاتے ہیں لیکن کشمیریوں کے دکھ کا مداوا نہیں کرتے۔ حریت پسند اپنی جان ہتھییلی پر رکھ کر پھرتے ہیں ۔ ہم ان کی خبریں تو ٹی وی پر سناتے ہیں لیکن ان کے کرب کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصہ کا حق ادا کرنا ہے۔ کشمیریوں کی آواز بننا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم سب صف باندھ کر بارڈر لائن پر لڑنے چل پڑیں لیکن ان کا اپنے دل سے ساتھ دینا ۔میڈیا پر کشمیریوں کی آواز بننا بہت ضروری ہے۔کشمیر کو جنت نظیر کہا جاتا ہے لیکن آج وہ جنت مسلمانوں کے لیئے جہنم کا نظارہ بن چکی ہے۔ چاروں طرف گولیوں کی بوچھاڑ اور چوبیس گھنٹے کرفیومیں گزارنے والے عوام کی قربانیوں کا صلہ سال میں ایک دن منا کر ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔ کشمیر کی تاریخ تو سبھی جانتے ہیں اس کو یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن کشمیر ی عوام کی قربانیوں کو فراموش کرنے سے تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

ہماری نوجوان نسل کو ان سب چیزوں کے بارے کوئی معلوما ت نہیں۔ان کو یہ تو پتہ ہے کہ سال میں ایک دن کشمیر کے نام پر منایا جاتا ہے اور کشمیر میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو اس دن خراجِ تحسین پیش کیا جاتاہے۔لیکن کشمیر یوں کی حالتِ زار کے بارے میں وہ نہیں جانتے۔ کشمیریو ں کی ہماری مدد کی ضرورت ہے اور آج کا نوجوان اگر چاہیے تو اپنا حصہ ڈال کر کشمیریوں کی مدد کر سکتا ہے۔ یہ حصہ آگاہی دینے سے بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ ہماری حکومت کی آنکھوں پر پڑی ہوئی پٹی کو اتا رنے کی صورت میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ کشمیر ڈے کے موقع پر سکولوں اور کالجوں میں طلباء کو اس دن کی غرض و غایت بتا نی چاہیے اور کشمیریوں کی قربانیوں کی تفصیل بتا نی چاہیے تاکہ ہما را آج کا نوجوان ان مسلمان بھائیوں کی یہاں بیٹھ کر ہر ممکن مدد کر سکے۔ اللہ سے ان کی فتح یابی کی دعا کر سکے۔ کافروں کے چنگل سے نکلنے میں ان کی مدد کرسکے۔ کشمیری مہاجرین کی مدد کرسکے۔

ہماری نوجوان نسل کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے بارے میں علم ہونا چاہیے۔ اس بڑے مقصد کا علم ہونا چاہیے جس کے حصول کے لیئے کشمیری نوجوان ،بوڑھے ،بچے اور خواتین اپنا تن من اور دھن لٹا بیٹھے ہیں۔ہم اے سی کمروں میں بیٹھ ان کے حق میں بیانات تو دے سکتے ہیں لیکن جس طر ح بھارتی فوج ان کو چلچلاتی دھوپ میں جانوروں کی طرح ہانک کر لے جاتی ہے اور ان پر ہونے والے سرِعام تشدد کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کسی کے لختِ جگر کو اس کے سامنے اگر گولی ماردی جاتی ہے تو پاکستا ن میں پوری قوم ان کے حق میں اظہار یکجہتی کر تی ہے جبکہ کشمیریوں کے ساتھ تو یہ ظلم کئی صدیوں سے ہو رہا ہے۔ ظلم و جبر کی چکی پیس پیس کر ان کے ہا تھو ں کی انگلیاں ختم ہو چکی ہیں جبکہ ہم کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ تو کہتے ہیں لیکن کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیئے کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک دوکا ن پر میں نے جب یہ لکھا ہو ا پڑھا کہ کشمیر کی آذادی تک ادھا ر بند ہے تو دل خو ن کے آنسو رویا۔ یعنی ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ کشمیر کبھی آذاد نہیں ہوگا اور کشمیری ہمیشہ ڈوگرا راجہ اور اس کے بعد بھارتی فوجیوں کے بوٹ تلے روندے جاتے رہیں گے۔

کشمیر ہمار ا ہے تو اس میں رہنے والے مسلمان بھی ہمارا حصہ ہیں ۔ آج کے کشمیر ڈے پر یہ طے کر لیجئے کہ اس دفعہ کا کشمیر ڈے ایک منفرد انداز سے منائیں گے ۔ کشمیر کے حریت پسندوں کو ایک اچھا پیغام دیں گے۔ مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دیں گے۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ وہاں کے مسلمانوں کی قربانیوں کو بھی اپنائیں گے۔ کشمیر ڈے ایک دن نہیں بلکہ پورا سال ہر دن منائیں گے جب تک کشمیر آذاد نہیں ہو جاتا۔اے کشمیریوں ہم تمہارے ساتھ ہے۔ کشمیر آدھا نہیں بلکہ پورا آذاد چاہیے۔ تمام نوجوانوں کشمیر کی آواز بنو۔ کشمیر تمہیں پکاررہاہے ۔ کشمیریوں کا ساتھ دوں ان کی قربانیوں کے بارے میں معلوم کروں اور صدقِ دل سے کشمیریوں کا ساتھ دو۔

 

Prof Tanveer Ahmad
About the Author: Prof Tanveer Ahmad Read More Articles by Prof Tanveer Ahmad: 71 Articles with 80719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.