تحریر۔۔۔ علی رضا رانا
انسان اور حیوان میں بہت مماثلتیں ہیں۔ مثلاً سانس لینے کے لیے ہوا کی
ضرورت ، زندگی کی نشونما کے لیے پانی اور خوراک کی طلب، دیکھنے کے لیے
آنکھیں، سننے کے لیے کان، انسانوں کی طرح نظام انہضام ، چلنے کے لیے پاؤں،
مذکر اور مؤنث بچوں کی پیداوار، انکی خوراک کے لئے جسمانی دودھ کی موجودگی
اور انکی حفاظت کی فکر وغیرہ لیکن اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا کرکے اشرف
المخلوقات بنادیا۔ اس عقل کے باوجود اگر انسان کا دل پتھر بن جائے اور ضمیر
مردہ ہوجائے تو پھر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ اپنے سیاسی،
عسکری اور معاشی مفادات کے لیے جب طاقتوار قوتیں اپنے ہتھیاروں کے بل بوتے
پر انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح تلف کردیتی ہیں تو انسانیت حیوانیت کے بد
ترین روپ میں سامنے آتی ہے۔ آج سے تقریباً دس سال قبل امریکہ اور اسکے
اتحادی مسلمان دنیا کے گنجان آباد تاریخی شہر بغداد پر حملہ آور ہوئے۔ رات
کی جگمگاتی روشنیوں میں آبادیوں، محلوں اور ہوائی اڈوں کو لیزر گائیڈڈ بموں
کا نشانہ بنایا گیا۔ جس سے انسانی اجسام کے پرخچے اڑتے دکھائے گھے لیکن سنگ
دل اور مردہ ضمیر انسانیت یہ سب کچھ ٹی وی اسکرینوں پر خاموش تماشائی بن کر
دیکھتی رہی۔ کسی نے احتجاج کیا نہ سلامتی کونسل میں کوئی آواز اٹھائی۔ ابو
غریب اور گوانتا ناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں قیدیوں کو ننگا کرکے ان
پر کتے چھوڑے گئے اور انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ اس کی اگر خبر لیک ہوئی
یا معمولی احتجاج سامنے آیا تو وہ بھی مغرب کی طرف سے لیکن پورا ایشیا ،
آسٹریلیا اور افریقی براعظموں سے اس بربریت کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی، نہ
کسی نے سلامتی کونسل میں اس انسانی تضحیک کے خلاف کوئی احتجاج کیا۔
افغانستان میں تو انسان کے ہاتھوں انسان کی تذلیل اس وقت پر انتہاپر نظر
آئی جب انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ جارح افواج کے سپاہی مقامی لوگوں کے
مردہ اجسام پر پیشاب کرتے دکھائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں عورتوں کو عصمت دری
اور پھر قتال اور اجتماعی قبریں، فلسطین میں نہتے مسلمانوں پر شطیلہ اور
سابرا مہاجر کیمپوں میں مظالم کی داستانیں اور کشمیر میں بے گناہ عورتوں،
بچوں اور بوڑھوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف یہ سب انسانیت کے نام پر
شرمناک دھبے ہیں۔ اتفاقیہ 25مئی2012ء کا دن تھا، جس دن اقوامِ متحدہ کی
رپورٹ کے مطابق شام کے دارلحکومت دمشق میں مغربی طاقتوں کی مدد سے لڑی جانے
والی خانہ جنگی میں 108لوگ لقمہ اجل بنے جن میں 34عورتیں اور آپ یقین کریں
49بچے شامل تھے۔ ایک طرف جانوروں سے ہمدردیاں اور دوسرے طرف انسانوں کے
خلاف درندگی، انسان کس چیز پر یقین کرے کہ وہ بدنصیب مائیں جو ان معصوم
بچوں کی ہلاکت کے بعد زندہ رہتی ہیں، کیا کبھی کسی نے انکے جذبات کا اندازہ
بھی لگایا ہے۔ خون میں لت پت اپنے معصوم بچوں کی لاشیں اٹھا کر وہ کتنے کرب
کا شکار ہوتی ہونگی۔ وہ شاید یہ نہیں چاہتیں کہ اپنے مردہ بچوں کے خود آلود
کپڑوں کو دھوڈالیں چونکہ اس طرح ان کپڑوں سے انکے لخت جگر کے جسم کی مہک کے
غائب ہونے کا خطرہ ہے۔ آپ خود اندازہ کرلیں کہ مسلمانوں کے دنیا میں خاندان
اجڑ گئے، کنبے تباہ ہوگئے، بچے بچھڑ گئے، ماں باپ قتل ہوگئے، جائیدادیں ختم
ہوگئیں، بوڑھے مرد، حاملہ عورتیں اور معصوم بچوں کا تکہ بوٹی ہوگیا لیکن
انسانیت خاموش رہی ہے۔
ہم سب تماشائی ہیں۔ بغداد ہو یا دمشق ، افغانستان ہو یا پاکستان ، لیبیا ہو
یا مقبوضہ کشمیرمسلمان دنیا اور علمی دنیا کے ضمیر بھی مردہ اور دل پتھر
ہوچکے ہیں۔ کشمیر دنیا کا وہ بد قسمت خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت 75لاکھ
نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابر انہ فیصلے کے ذریعے
اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی، انصاف کے عالمی دعویداروں نے ہمیشہ انصاف
کے نام پر کشمیریوں کی نسل کشی اور تباہی کے منصوبوں کا ساتھ دیا۔ کشمیریوں
نے آزادی کے لیے کئی لاکھ جانبازوں کی قربانی دی مگر عالمی قوتوں کی منافقت
کے باعث آزادی کی یہ جنگ ظلم جبر اور تشدد کا نہ صرف سبب بنی بلکہ جنت نظیر
وادی ایک فوجی کیمپ خوف، مایوسی اور تاریکی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ کشمیر وہ
خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی، سر سبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و
بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین پھلوں ، میووں ، برف پوش پہاڑی سلسلوں ، حسین
وادیوں ، یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفا کشی، اسلام دوستی، محبت و
بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور
اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی اور کشمیر کا ذکرآتے ہی انہی چیزوں
کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود کشمیریوں نے امید کا
دامن نہیں چھوڑا ہے۔ بے انتہا جانی و مالی نقصانات کے باوجودکشمیر کے عظیم
سپوتوں نے اپنی آزادی کا سودانہیں کیا ۔تنازع کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین
تنازع کہا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر نام نہاد مہذب دنیا نے اس
تنازع کو حل نہیں کیا تو شاید دنیا میں پہلی باقاعدہ عالمی ایٹمی جنگ اور
پھر دنیا کی ایک بڑی تباہی کا سبب کشمیر ہی بنے گا۔ کشمیریوں کی جرأت و
بہادری اور بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول کی جدو جہد سے اظہارِ یکجہتی کے
طورپر پاکستان قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر
مناتی ہے۔
ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7بڑے ریجنوں وادی کشمیر، جموں ، کر گل ،
لداخ، بلتستانی ، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل
84ہزار471مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام
متحدہ کے 140اور رقبے کے حساب سے 112رکن ممالک سے بڑی ہے۔ مذکورہ بالا تمام
ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ماہرین ارضیات
کا کہنا ہے کہ دس کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا مگر آہستہ
آہستہ خطے کی سر زمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی 10کروڑ سال گزرچکے
ہیں۔ ہزاروں سالہ تاریخ کا جب مطالعہ کیاجاتا ہے تو کبھی کشمیر کی ریاست
دہلی سے کا بل، کبھی لداخ سے سندھ کے ساحل کراچی تک پھیلی نظر آتی ہے
اورکبھی اسی ریاست میں درجنوں چھوٹی بڑی آزادریاستیں نظر آتی ہیں۔ آج کی
دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15اگست 1947ء کو قائم ہوئی، ریاست
جموں و کشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار
پائی۔ کشمیریوں کی بد قسمتی کا آغاز16مارچ 1846کو میں معاہدہ امر تسر کے
ساتھ ہی ہوا جس کے ذریعے گلاب سنگھ نے انگریز سے 75لاکھ نانک شاہی میں جموں
و کشمیر اور ہزار ہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا جبکہ گلگت بلتستان، کرگل
اورلدخ کے علاقوں پر قبضہ کرکے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم کی،
مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی کیونکہ حکمران طبقہ
اقلیتی تھا جبکہ خطہ کی 85فیصدآبادی مسلمانوں کی تھی اس لیے حکمران ہمیشہ
مسلمانوں سے ہی خطرہ محسوس کرتے تھے۔مہاراجہ نے مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے
کے لئے بڑی کوششیں کیں یہی وجہ ہے کہ 1846کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف
1931تک کوئی نمایاں آواز نہیں اٹھی اگرچہ اس عرصے میں مسلمانوں کی نصف درجن
سے زائد انجمنیں یا جماعتیں بن چکی تھیں مگر دوگرہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے
مسلمان سرنہ اٹھا سکے۔ہم جب ریاست جموں و کشمیر کا جائزہ لیتے ہیں تو ڈوگرہ
حکمرانوں کے دور میں 1924تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے۔ یہ خاموشی 1924میں اس
وقت ٹوٹی جب سرینگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے
اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز
میں آواز ملائی اوریوں پوری ریاست سراپا احتجاج بن گئی، اس تحریک کو بھی
ڈوگروں نے طاقت کے زور پر ختم کرنے کی کوشش کی، وقتی طورپر یہ تحریک کمزور
ضرور ہوئی مگر اس کے بعد ریاست کے عوام میں بیداری آئی اور آزادی کا جذبہ
تونا ہوا۔ ڈوگرہ حاکم کی کوشش رہی کہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنایا جائے یا
اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو
پاکستان کا حصہ بنانا تھا مگر ڈوگرہ تاخیر ی حربے استعمال کرتا رہا یہی وجہ
ہے کہ 24اکتوبر کو آزاد کشمیر میں آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مجاہدین
نے سرینگر کی طرف رخ کیا او رسرینگر تک کے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مہاراجہ
کشمیر دارلحکومت سے بھاگ کر جموں چلا گیا۔
اکتوبر 1947کو مہاراجہ کشمیر نے نہ صرف بھارت سے فوجی امداد طلب کی بلکہ
بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دی اور 26بھارت چونکہ کشمیر پر قبضے
لیے موقع کی تلاش میں تھا لہذا 27اکتوبر1947کو بھارتی افواج کشمیرپر قابض
ہوگئیں ، دوسری طرف پاکستان کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے مجاہدین کو آزادکیا
ہوا ایک بڑاعلاقہ بھی خالی کرنا پڑا اور مجبوراًپسپائی اختیار کرنا پڑی ،
بھارت کشمیر میں اس وعدے کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ امن کے قیام کے بعد کشمیر
سے واپس چلا جائیگا مگر آج تک بھارت کی واپسی نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جب
سرینگر میں بھارتی قبضہ ہوا اور کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوئی تو یکم
نومبر 1947کو گلگت میں بھی بغاوت ہوئی۔ ڈوگرہ گورنرگھنسا را سنگھ کو گرفتا
کرکے اسلامی جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز
(تراگبل، قمری ، کلشئی، منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948تک جنگ جاری
رہی۔16نومبر1947کو پاکستان نے اس پر کنٹرول کیا انگریزکے برِ صغیر سے جانے
کے بعد کشمیریوں کو ڈوگرہ سے آزادی تو ملی مگر ریاست جموں و کشمیر کا ایک
بڑا حصہ بھارتی غلامی میں چلا گیا۔ جب سے اب تک تنازع کشمیرپوری دنیا با
لخصوص جنوبی ایشیاء کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ آج کشمیریوں کی آہ
سننے والا کوئی نہیں ہے سب کے سب نے بلکہ دنیا کے بڑے بڑے رہنماؤں نے اپنی
آنکھیں بند کرلی ہے، ہندوستان بد معاشی کی حد بھی آگے نکل گیا ہے سال
2018کے اندر 7سے زائد تحریکی رہنماؤں اور 100سے زائد عام تحریکی کارکنوں کو
شہید کر دیا گیا ہے، مگر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ، اقوام متحدہ کی
پالیسی اگر بہتر ہوجائے اور اقوام ِ متحدہ چاہے تو انڈیا کو سخت ترین حکم
دے کر کشمیر کی عوام کوریلیف دلا سکتا ہے، مگر طاقت کا نام لینے والی
امریکی سرکار خود ہندوستان کو اپنی گود میں لے کر بیٹھی ہے اور انڈیا اس
بات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
پاکستان کی سابقہ اور موجودہ 3حکومتیں کشمیریوں کے نام پر نعرہ آزادی لے کر
قائم ہوئی اور دو اپنی مدت پوری کرکے ختم ہوگئی مگر مسئلہ جوکا توہی ہے مگر
2018میں بننے والی عمران خان حکومت نے اقوام متحدہ میں ہندوستان کی بدمعاشی
اور ظلم و زیادتی پر آواز بلند کی اور سخت ترین احتجاج بھی ریکارڈ
کردیاوزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اس بہترین اقوام کے مستحق ہیں کہ انھونے
کشمیریوں کے احساس کو مزید اجاگر کیا اور دنیائے حکمران کو بتایا کہ کشمیری
عوام اس وقت ایک ایسی عزیت میں مبتلا ہے جو کسی جہنم سے کم نہیں ہے مگر
مسئلہ جموں کشمیر سال 2018کے ختم ہونے کے ساتھ ہی اب تک ایک جموں کشمیر
مسئلہ ہے آج سال 2018ختم ہونے پر بھی کشمیر شہد کئے جارہے ہیں عورتوں کی
عصمت دری جاری ہے بچے یتیم کئے جارہیں ، مگر جس طرح عمران خان حکومت کے
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے لئے آواز بلند
کر رہے ہیں امید کی جا سکتی ہے کہ ، سال2019کشمیریوں کے لئے حق راہ اور
آزادی کی صبح بن کر طلوع ہوا ہے، اﷲ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں
بلخصوص کشمیرکے مسلمانوں کے لئے آسانیاں عطا فرمائیں اور کافر کے ظلم سے
نکات دلائیں اور کافر کو تباہ و برباد کریں آمین۔
لکھنے کو تو ہاتھ رک نہیں رہا مگر کہانی کا اختتام کچھ یوں ان اشعار پر
کرتا ہوں
شہر شہر نگر نگر لہو گرا شہید کا
جدھر اُٹھی میر نظر لہو گرا شہید کا
گلی گلی میں خون ہے چمن چمن میں خون ہے
نہا رہے ہیں خشک و تر لہو گرا شہید کا
زمین کی پیاس جو بجھی تو بجھ گئی ہے خون سے
ملا ہے پھر یہ سیم و زر لہو گرا شہید کا |