زندگی کو دیکھئے ۔۔۔۔۔اپنی آنکھ سے

زندگی بہت حسین ہے۔اس کے ہر ایک گزرتے ہوئے لمحے کو انجوائے کیجیئے۔زندگی کے بارے میں اس طرح کی باتیں صرف ان لوگوں سے سننے کو ملتی ہیں جو واقعی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ زندگی لمحہ بہ لمحہ کم ہو رہی ہے۔ دبئی میں قیام کے ابتدائی دنوں میں میں کافی ذیادہ پریشان رہتا تھا۔ فیملی کو وہاں کیسے سیٹ کرنا ہے۔ کم آمدنی سے اپنا اور اپنی فیملی کی گزر بسر کیسے کرنی ہے۔ کام پر بھرپور توجہ دینی ہے۔ نئی چیزوں کو کیسے سیکھنا ہے۔ میر ے اردگرد رہنے والے لوگ مختلف زبانوں میں گفتگو کرتے تھے جس کی مجھے کوئی سمجھ نہیں آتی تھی۔ جس سائن بورڈ کمپنی میں کام کرتا تھااس میں ذیادہ تر ملازمین کی تعداد انڈین ملواری لوگوں کی تھی جو اپنی زبان میں ہی بات چیت کرتے تھے ۔ میری کمپنی کا مالک اور اس کا بیٹا جارڈن کے عربی تھے وہ دونوں اور کمپنی کے مالک کی بیوی آپس میں عربی بولتے تھے۔ ملازمین کا فورمین ایک مصری تھا۔ جو پاکستا نی ڈرائیور کے ساتھ عربی اور کبھی مصری میں گفتگو کرتا تھا۔ کمپنی کا پاکستا نی ڈرائیور جس کا نام بشیر تھا۔ اسی کمپنی میں تقریباً بیس سال سے کام کر رہا تھا اور ہر بندے کو بخوبی جانتا تھا۔ میر اعہدہ اکاونٹس اور پرچیز مینیجر کا تھا اور میر ا اسسٹنٹ بھی انڈین تھا جس کا نام جینو تھا۔ سیلز مین فلپائنی تھے جو آپس میں فلپائنی بولتے تھے۔ دفتر کے ماحول کے علاوہ ایک نئے ملک میں جاکر خود کو سیٹ کر نا بہت مشکل کام تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ کبھی کبھی میں کافی پریشان بھی ہو جاتا تھا۔ میر ی کمپنی کے مالک کا بیٹا جس کا نام یوسف دیوک تھا ۔ اس کی ساری تعلیم کینیڈا سے تھی اور وہ وہاں سے واپس آکر اپنے باپ کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ اس کی ایک عادت بہت مختلف تھی کہ جب بھی اس کا موبائل بجتا وہ اس کو سنتے وقت مسلسل چلتا رہتا تھا۔ اسکے ذہن میں بزنس کو آگے بڑھانے کے کا فی پلان تھے۔ میں ڈائیریکٹ اس کو رپورٹ کرتا تھا۔مجھے جو بھی اسائنمنٹ دی جاتی وہ جلد سے جلد بنا کر میں اسے دے دیتا تھا۔ اور وہ میر ے کام سے کافی خوش بھی تھا۔ کوئی بھی رپورٹ فائنل کرنے سے پہلے وہ اس میں بہت ذیادہ مرتبہ تبدیلیاں کرتا تھا۔ وہ بھی میر ی پریشانی کو نوٹ کررہا تھا۔ ایک دن اس نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور میرے ہر وقت پریشان رہنے کی وجہ پوچھی ۔ میں سے اس کو سارے معاملات بتا دیئے۔ اس نے مجھے کہا کہ پریشانی کسی بھی مسلئے کا حل نہیں ہے۔ کبھی بھی مسائل کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ ہمیشہ ان کے حل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ زندگی کے مسائل کبھی کم نہیں ہوتے ۔ یہ ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں ۔ صرف ہمیں پرسکون رہ کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ زندگی بہت مختصر ہے اور ہم اس کو دوسروں کے بارے میں سوچتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ہمارے بارے میں کبھی سوچا بھی ہو گا یا نہیں۔زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے۔اور ہم لوگ اس کو فضول بنا رہے ہوتے ہیں۔

ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم زندگی کو کبھی بھی اپنی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہمیشہ زندگی کی خوبصورتی یا بد صورتی کو دوسروں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر ہماری زندگی میں موجود لوگ تنگ نظر ہیں تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی تنگ نظر بن جاتے ہیں۔ اور اگر ہمار ی زندگی میں موجود لوگ زندگی کا روشن پہلو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم بھی ان جیسا ہی بن جاتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمار ا اپنا بھی ایک نظریہ ہونا چاہیے۔ جتنے بھی کامیاب لوگو ں سے میں ملا ہوں یا ان کے بارے میں پڑھا ہے میں نے یہی سیکھا ہے کہ وہ لوگ زندگی کے بارے میں اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں اور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں ۔ وہ دوسروں کی نظر سے دنیا کو نہیں دیکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسرے لوگو ں کو مجبور بھی نہیں کرتے کہ وہ دنیا کو ان کی آنکھ سے ہی دیکھیں۔ اگر ان کا اپنا نظریہ واضح ہو تا ہے تو چاہتے نہ چاہتے لوگ ان کے نظریے کی پیروی شروع کر دیتے ہیں ۔ جو لوگ دوسروں کے بارے میں مثبت سوچتے ہیں لوگ بھی ان کے بارے میں مثبت سوچتے ہیں ۔ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔جو کمیٹی آپ آج ڈال رہے ہیں وہی کل کو نکلنی ہے۔ بندہ اپنے کام کرکے اور دوسروں کے ساتھ ذیادتی کرکے سمجھتا ہے کہ میں بہت پھنے خان ہو ں اور وہ اپنی کی ہوئی تمام ذیادتیوں کو فراموش بھی کر دیتا ہے لیکن اﷲ کی نظر میں وہ سب اعمال کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ جلد یا بدیر انسان کو اپنے کئے ہو ئے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ انسان اپنی زندگی میں ہی اپنے اعما ل کا بدلہ پا لیتا ہے جس کا اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔لیکن جو لوگ اپنی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں وہ کبھی کسی دوسرے کے ساتھ ذیادتی نہیں کرتے۔

ہر انسان کے اپنے نظریا ت نہیں ہوتے ۔ بچپن میں وہ زیادہ تر اپنے والدین کی عینک سے سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کے لئے ہیرو کا کردار ادار کررہے ہوتے ہیں۔جیسے جیسے وہ بڑا ہو تا ہے وہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی عینکیں مستعار لے لیتا ہے۔ اپنی آدھی سے ذیادہ زندگی گزارنے کے باوجود بھی وہ اپنا نظریہ قائم نہیں کر پاتا۔ وہ اپنی زندگی اسی طرز پر گزار رہا ہوتا ہے جس طرز پر لوگ چاہتے ہیں۔ اس کی اوپر کوئی ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے وہ کبھی بھی لیڈ نہیں کر پاتا۔ آفاق پبلشرز کے جناب نوید صاحب نے ایک ٹریننگ کا اہتما م کیا جس کا عنوان تھا لیڈنگ ود ٹرسٹ (Leading with Trust)۔ اگر آپ نے لیڈر بننا ہے تو اپنے اندر تو ٹرسٹ پیدا کریں۔ اگر آپ کو اپنے اوپر اور اپنی صلاحیتوں پر ہی ٹرسٹ نہیں ہے تو آپ دوسروں کو لیڈ کیسے کر سکتے ہیں۔

کامیاب لوگ اپنی عینک سے اور اپنی نظر سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور خو د کو بدلتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ساری دنیا ان کے مطابق چلے بلکہ وہ اپنے نظریات پر اس طر ح کاربند ہو جاتے ہیں کہ دنیا ان کے پیچھے پیچھے ہوتی ہے اور جو لوگ خو د کو بدلے بغیر دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو پاتے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 80907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.