اکیسیویں صدی میں ہم سوشل ویب سائٹس کی دنیا میں جی رہے
ہیں۔ لیکن اس میڈیا کی خاصیت یہ ہے کہ نسبتأ پڑھے لکھے طبقے تک محدود
ہںے-لیکن سوال وہںی پرانا ہںے, کیا ڈگری ذہنی جہالت کو بھی دور کرتی ہںے؟
میری آجکی پوسٹ میں روزمرہ کے ہںونے والے چند معمولی واقعات ہیں جسکو نہ آپ
حراساں کرنا کہہ سکتے ہیں نہ ہںی اس پر کوئی ایکٹ لگتا ہںے لیکن معاشرہ
بتدریج پستی کی طرف جا رہاہںے-قصور وار کون؟ کہیں یہ چور ہمارے اندر تو
موجود نہیں؟ اگر نہیں تو آس پاس موجود ایسے لوگوں کو پہچانیۓ- جن کے ایسے
اقدام مجھ جیسے کئی حساس لوگوں کے ذہنوں پہ برے نقش چھوڑ جاتے ہیں- انکے
کام کرنے کی صلاحیت اور روزمرہ کے معمول پہ اثرانداز ہںوتے ہیں-
میری تحریر ذاتی تجربات اور اپنے اردگرد ہںونے والے حقائق پر مبنی ہیے-
اس ایجوکیٹڈ میڈیا اورجدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کاحق عورت کو کیوں
نہیں؟سوشل میڈیا پر موجود خواتین کو صرف دل بہلانے کا سامان کیوں سمجھا
جاتا ہںے؟
نوجوان طبقہ اپنی contect List میں موجود خواتین کے آںئ ڈیز کو سینے پہ سجے
تمغے کی حیثیت دیتے ہیں-دوست احباب میں اس پر گفتگو کرنا باعث فخر سمجھا
جاتا ہںے- اور جہاں خاتون کی طرف سے لفٹ نہ دی جائے یا معذرت کرے وہیں اسے
منفی پیغامات یا تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے- ان باکس میں جواب نہ دینے
پر لوگوں کے تاثرات......
• Ye sb se immature post hoti kci b lrki ki traf se..mtlb barish b psand
hay mgr bheegna ni chati......
• Manufacturing fault
• whtsapp number bhaij do
• peechy lgany ka niya andaz hy kiya
اب آ جاتے ہیں درمیانی عمر کے لوگ جوہمہ وقت بیویوں پر مبنی لطائف پوسٹ
کرنے میں مصروف ہیں,وہیں میڈیا پر بیٹھی عورتوں کو اپنے غم سنانے کو
تیار-دو بچوں کے ساتھ تصویر تو لگی ھے مگر بچوں کی والدہ سے ذہنی ہںم آہنگی
نہیں سو وقت گزارنے کو ایک فی میل دوست ضروری ہںے- یہ ایک کئی بار بھی ھو
جاۓ تو مضائقہ نہیں, جنت میں بھی تو بہتر حوریں ہںوں گی-
بزرگین معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی کر نے اور انکو سدھارنے میں دلچسبی
ہںوا کرتی تھی-ریٹائرڈ بزرگوار اپنے دور کے قصے اور حکایتیں سنا کر باتوں
باتوں میں بات سمجھا جاتے تھے مگر سوشل میڈیا نے انکو بھی دوہرے معیار کا
بنا دیا- (چند فرضی ناموں کو استعمال کر رہںی ہںوں کیونکہ دل آزاری مقصد
نہیں)- حاجی برکت اللہ, کیا پر نور نام ہںے اب ایسی فرینڈ ریکویسٹ کو کون
جھٹلاۓ- جمعہ کی برکت, نماز کے فضائل پہ پوسٹ آ رہںی ہیں-اچانک ان باکس میں
حاجی صاحب کا میسج آ جاتا ہںے, کیسی ہںو جان...... (آخری لفظ پہ تو آنکھیں
کھلی اور عقل دنگ ہںوتی ہںے)
یقین کرو کئی پوسٹ صرف تمہارے لائیک کرنے کے انتظار میں لگاتا ہںوں-
خاتون: کیا یہ آپ ہںی ہیں حاجی صاحب؟
برکت اللہ: تمہاری قربت کی تڑپ نے ایسا بنا دیا, یقین کرو دل کرتا کوئی
اپنا ہںو جس سے دل کی سب باتیں کروں, لو جی دکھڑے شروع....
اگر تو بات بن گئی الحمدوللہ اور اگر کوئی واویلہ کرنے والی سےسامنا ہںو
گیا تو وہی پرانا بہانہ,,,, چند دن خاموشی اختیار کرنے کے بعد ایک سادہ
پوسٹ لگا دی-جسکی تحریر کچھ یوں ھو تی ہںے "پچھلے چند دن سے کسی نے اکاؤنٹ
ہیک کر لیااور نا زیبا حرکات کر رہا ہںے, احباب سے معذرت کی اپیل ہںے... 😉
ہمارے معاشرے کا چلن بگڑتا جا رہا ہںے مگر اس کے لیے مائنڈسیٹ بدلنے کی
ضرورت ہے۔
کیونکہ اخلاقی رویوں کی نہ تو کہیں شکائیت درج ہںوتی ہںے اور نہ کسی عدالت
سے سزا, مگر ایک بات دعوے سے کہہ سکتی ہںوں- کسی کو کہا گیا ایک حرف بھی با
ز گشت بنکے واپس آپکی طرف لوٹتا ہںے- کہیں آپکے ایسے رویے کی بازگشت کا
شکار آپکی اپنی بہن بیٹاں بھی ھو رہںی ہںوں؟ |