جا خدا کو پیاری ہو جا

ویسے تو دنیا میں اللہ تعالی کی دی ہوئی بہت سی نعمیتیں ہیں جو انسان کے لیے ان گنت ہیں اور ان کا شمار بھی شاید ممکن نہیں ،اب آنسوؤں کو ہی لے لیجیئے ویسے تو ان آنسوؤں کو ہم میں سے کہیں لوگ شاید اہمیت نہ دیتے ہوں لیکن اگر غور کریں تو یہ قدرت کی ہی ایک عظیم رحمت ہیں ،ان کے ذریعے انسان اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتاہے اور کسی دوسرے کو اپنی تکلیف کا احساس دلا سکتا ہے اب سائنسی لحاظ سے ہی لے لیجیئے کہ یہ آنسو ایک لحاظ سے انسانی نظر کے لیے بھی مفید ہیں۔ ذکر اللہ کی نعموتوں کا ہو رہا تھا تو ان میں سے ایک ماں کی ہستی بھی ہے جس کے بارے میں انسان صرف بات ہی نہیں کر سکتا بلکہ خو اس کا خود احساس بھی کر سکتا ہے۔

پچھلے دنوں اسی ماں جیسی ہستی کے حوالے سے ایک خبر آئی جو کراچی کی تھی کہ ایک ماں نے اپنی ڈھائے سالہ بچی کو سمندر کی جوش کھاتی لہروں کے سپرد کر دیا اور کچھ کے مطابق وہ ماں اس کے بعد وہاں سے چلی گئی اور کچھ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی خودکشی کرنے والی تھی کہ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور بچا لیا۔

یہ بات اپنی جگہ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس طرح ایک ماں نے اپنی ڈھائے سالہ بچی کو سمندر کی لہروں کے سپرد کر دیا اور اپنی بچی کو موت کی آغوش میں جانے دیا اور کھڑی دیکھتی رہی اور آخر ایسی کیا وجہ تھی جس کی وجہ سے اس ماں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ چاہئے اسے سزا ہو یہ نہ ہو لیکن اب وہ ماں جی نہیں پائے گی اور یہ گناہ ساری زندگی اس کو اذیت دیتا رہے گا ۔لیکن بچی تو اب واپس نہیں آئے گی اور نہ جانے اتنی معصوم اور چھوٹی بچی کس اذیت سے دوچار ہوئی ہو گی سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔

سوال یہاں یہ بھی ہے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے وہ ماں یا پھر اس ماں کے ماں باپ جو اسے گھر میں رکھنا نہیں چاہتے تھے یا پھر اس بچی کا باپ جو اپنی بچی کو ایک بوجھ سمجھ رہا تھا۔

پولیس کے مطابق انھوں نے تو تفتیش میں ان سب ہی کو شامل کیا ہے لیکن شاید یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کچھ لوگوں کی ہمدردیاں شاید اس ماں کے ساتھ ہوں لیکن شاید میں اس بات کو اتنی آسانی سے ہضم نہ کر سکوں،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بچی کا باپ بھی جرم میں اتنا ہی قصور وار ہے جتنا کی اس کی ماں لیکن ایک سوال جو میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا وہ یہ ہے کہ آخر اس ماں نے کوئی دوسرا راستہ کیوں نہ اپنایا مثلا کہ وہ بچی کو کسی سماجی تنظیم کو بھی دے سکتی تھیں یا پھر وہ خود بھی اس بچی کو پال سکتیں تھیںں جو شاید قتل سے لاکھ گنا بہتر تھا اور یہ مثال معاشرے میں بہت عام ہے تو پھر اس خاتوں نے قتل ہی کو کیوں ترجیح دی ۔

شاید اس کیس کا منطقی انجام بہت جلد نی دیکھ سکیں ہم جو عموما ہمارے ملکی نظام کا ایک مسئلہ ہے لیکن شاید اس کیس میں ہمیں کچھ پہلو نفسیاتی مسائل کے بھی نظر آئیں،لیکن اس کیس کو دیکھ کر مجھے ایک پرانا کیس بھی یاد آگیا کہ جس میں ایک خاتون نے اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لئیے اپنے بچوں کا قتل کیا تھا تو کہیں یہاں بھی کچھ ایسا تو نہیں ہوا لیکن اب جو بھی ہو وہ بچی تو اب جینے کے حق سے محروم ہو چکی اور اس ریاست کے کردار اور عملداری پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے؟؟؟

Obaidurrehman
About the Author: Obaidurrehman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.