ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ادب دراصل معاشرے کا آئینہ ہوتا ھے. ہمارے معاشرے میں ھوتا ھے, ھو گیا ھوتا
ھے, یا ھونے والے کا تصوری عکس مختلف اصناف میں سامنے لایا جاتا ھے جس سے
معاشرے کے اصل حقائق اور معاشرت کا اصل چہرہ ہمارے سامنے منکشف ہوتے ہیں
ادب عربی زبان کا لفظ ھے ,انگریزی زبان میں ادب کو (Literature ) کہا جاتا
ھے اسکا مطلب ھے کہ ""حیرت انگیز چیز ""
عادت اور طرز عمل کا ایسا معیار جو داد کے قابل ھو
اردو انسائیکلوپیڈیا, دائرہ معارف اسلامیہ کی جلد دوم میں اسکی وضاحت کچھ
اس طرح بیان کی گئ ھے
""اپنے قدیم ترین مفہوم میں اسے سنت کا مترداف سمجھا جاتا ھے یعنی عادت,
موروثی معیار, طرزعمل, دستور, جو انسان اپنے آباواجداد اور ایسے بزرگوں سے
حاصل کرتا ھے جنھیں قابل تقلید سمجھا جاتا ھے جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اسکے
معانی میں تبدیلی آتی رہی کبھی یہ لفظ توازن, شائستگی, حسن ترتیب, خوش خلقی
اور اعلی روحانی صفات کی عکاسی کے طور پر استعمال ہونے لگا. تاریخ بتاتی ھے
کہ بنوامیہ کے دور میں یہ لفظ شاعری اور علمی ؤ ادبی تحریروں کے لیے بھی
رائج تھا اور عباسی دور میں ادب کو تہذیب اور شہری زندگی کی شائستگی کے لیے
بھی استعمال کیا گیا تھا اسکے ساتھ ایک قدم اور اگے پہلی صدی ہجری میں ادب
کو درج بالا معانی کے ساتھ ""علم ""کے لیے بھی برتا جانے لگا تھا.
لفظ ادب دو معنوں میں خاص طور پر استعمال ھوتا ھے
ایک معانی میں یہ دوسروں کی عزت, تکریم ؤ احترام یعنی انگلش میں (Respect)
کے طور پر ( لہذا با ادب, با نصیب)
دوسرے معنوں میں اہل علم ؤ دانش کے نزدیک ادب وہ ھے جس میں انسانی زندگی کا
اور اس سے وابستہ ہر شے (چیز) کا مطالعہ کرنا ھوتا ھے جس میں ایسی تحریر
ہوتی ھے جسکو پڑھ کر نہ تو اکتاہٹ محسوس ھوتی ھے اور نہ ہی پڑھنے والے پر
کوئی دباؤ پڑتا ھے بلکہ اگر یہ کہا جاۓ کہ ایسی تحریر پڑھ کر انسان اپنے
آپکو ہلکا پھلکا سمجھتا ھے تو غلط نہ ھو گا.
آج ہر لکھی ہوئی تحریر کو ادب سمجھ لیا جاتا ھے جو بالکل درست نہیں ھے
کیونکہ ہر لکھی ہوئی تحریر ادب نہیں ہوتی بلکہ وہ متن کہلاتی ھے ادب کی
وضاحت کرتے ہوۓ اہل علم کہتے ہیں کہ تحریریں دو قسم کی ہوتی ہیں ان میں کچھ
تحریریں ادبی ہوتی ہیں اور کچھ غیر ادبی. اہل علم کے نزدیک سائنسی,
جغرافیائی, نفسیاتی, معاشرتی تحریریں, اخباری خبریں, اور صحافتی کالم غیر
ادبی تحریریں شمار ہوتی ہیں جبکہ ادبی تحریریں وہ ہوتی ہیں جن میں حقائق کے
جذبات ؤ احساسات کا بھی باہمی ملاپ رکھتی ھوں.
یاد رہے کہ ادب کے بارے میں مزید اہل علم کہتے اور لکھتے ہیں کہ ادب کی دو
اقسام بنیادی حیثیت کی حامل ہیں اور وہ ہیں شاعری اور نثر.
اہل علم شاعری کی ضمنی اقسام نظم, غزل, قصیدہ, مرثیہ, رباعی وغیرہ جبکہ نثر
میں افسانہ, کہانی, ناول, ڈراما, مضمون, آپ بیتی, اور سفر نامہ شامل ہیں.
بے شک ترقی یافتہ آج کے دور میں ادب کی ہر قسم ترقی کی منازل طے کرنے کی
بجاۓ عشق کی منازل طے کرتی نظر آتی ھے جسکی وجہ سے معاشرہ ادبی اور غیر
ادبی تحریروں سے ناواقف ھوتا جا رہا ھے ہم بھول گۓ ہیں کہ ادب تخلیقی زبان
سے وجود میں آتا ھے اور اسکے لیے زبان پر عبور ہونا لازم ہے لیکن ہم نے
اپنی قومی زبان کو وہ مقام دیا ہی نہیں لہذا ہم زبان پر عبور ؤ ادب سے
ناواقف ہیں.
دنیا کی کسی بھی زبان کا مطالعہ کر لیں ہر زبان میں ادب موجود ھے کیونکہ
ادب کا بنیادی مقصد انسانوں کو ذہنی طور پر آسودگی اور خوشی فراہم کرنا تھا,
ھے اور رہے گا بھی.
معاشرے کا آئینہ ادب ہے. ادب کا مطالعہ انسانوں کو جہاں دنیا کے حالات ؤ
واقعات سے آگاہ کرتا ھے وہیں ادب ان میں اس سے سبق دے کر اصلاح ؤ بہتری کی
بنیاد رکھتا ھے ادب کا مطالعہ ناصرف اچھے برے کی تمیز سکھاتا ھے بلکہ نیک ؤ
بد کے فرق کو بھی واضح کرتا ھے معاشرے کی ہر اچھی ؤ بری اقدار کو پرکھنے
میں مدد دیتا ھے تو دوسری جانب اسی پرکھ کی بدولت انسان کو اپنی زندگی کے
صحیح رخ ؤ منزل کی طرف راہ نمائی فراہم کرتا ھے
ادب انسانی معاشرے میں بہترین اقدار کی پاس داری کا ضامن ہوتا ھے ادب کے
مطالعے سے انسانی معاشرہ خیر ؤ شر میں تمیز کا اہل بنتا ھے اور معاشرتی
تقاضوں کو سمجھتے ھوۓ بہتر زندگی گزارنے کے اصولوں سے آگاہی حاصل کرتا ھے
اگر یہ کہا جاۓ کہ ادب ہی وہ واحد ذریعہ ھے جسکی بدولت انسانی معاشرہ کو
انسانیت کے نزدیک تر رکھتا ھے تو غلط نہ ھو گا ادب معاشرے اور انسانی زندگی
کے باقی ؤ سلامت رہنے اور رکھنے کا ضامن ہے اس لیے ہمیں اپنے روشن پاکستان
کے روشن مستقبل کی محافظ اپنی نئی نسل کو یہ بتانا ھو گا کہ انسانی معاشرہ
ادب سے روگردانی اختیار کرے گا تو انسان کے اس دنیا سکون والی, روشن مستقبل
والی زندگی بسر کرنا دشوار ھو گا لہذا اپنی زندگی کو ادب کی انگلی پکڑ کر
گزارنے والے بن ان شاءاللہ کامیابی نصیب ہو گئ.
|