پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ مشکل ترین کام کیوں؟

اگر آپ پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ کر سکتے ہیں تو پھر دنیا میں کہیں بھی کر لیں گے۔

آپ کسی بھی شوقین غوطہ خور سے پوچھیں تو وہ آپ کو یہی بتائے گا۔ درحقیقت دنیا بھر میں سکوبا ڈائیونگ کے لیے مشہور مقامات پر غوطہ خوری بہت آسان ہے۔ لیکن مجھے یہ جاننے کے لیے کئی پاپڑ بیلنے پڑے، کیونکہ پاکستان میں سکوبا ڈائیونگ کافی مشکل ہے۔
 

image


یہاں زیادہ تر سکوبا ڈائیونگ سردیوں میں ہوتی ہے، کیونکہ گرمیوں میں مون سون ہواؤں کی وجہ سے سمندر تلاطم خیز ہوتا ہے۔ سو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، ٹھنڈا ٹھنڈا پانی، لیکن کشتی پر گرم گرم چائے ہوتی ہے۔

چونکہ موسم کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، اس لیے ہمیں موسم کی پیش گوئی کے بارے میں معلومات انھی مقامی مچھیروں سے ملتی ہیں جو ہمیں اپنی کشتیاں کرائے پر دیتے ہیں۔ اُنھی سے مشورہ لینا پڑتا ہے کہ آیا حالات سازگار رہیں گے یا ہم گھنٹوں لہروں پر ڈولتی کشتی پر بیٹھے ’سی سکنس‘ (یعنی متلی ہونا، قے یا چکر آنا) کا سامنا کر رہے ہوں گے۔
 

image


٭ ماہرانہ مشورہ: ’سی سکنس‘ ختم کرنے کے لیے فوراً سمندر میں غوطہ لگا لیں۔ یہ اس کا فوری توڑ ہے۔

میں نے سکوبا ڈائیونگ کا ابتدائی لائسنس چند سال قبل ترکی کے شہر کوش میں حاصل کیا۔ میں اس وقت سیروتفریح کے غرض سے وہاں گئی تھی۔ سامنے یونان تھا اور بحیرۂ روم ایک پرسکون سوئمنگ پول کی مانند تھا۔ یہی نہیں بلکہ کوش میں غوطہ خوری کے حوالے سے بہترین انتظامات بھی ہیں۔

آپ صبح دس بجے اٹھ کر گھاٹ پر کھڑی کشتی پر سوار ہوں تو صرف 20 منٹ میں ڈائیونگ کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ پانی میں گہرے غوطے کے لیے مناسب پلیٹ فارم یعنی چھلانگ لگانے کی جگہ بھی ہوتی ہے اور آپ اپنے دوسرے غوطے سے پہلے دوپہر کے کھانے کے لیے ساحل تک باآسانی واپس بھی آ سکتے ہیں۔

لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

آپ کے دن کا آغاز صبح چھ بجے ہوتا ہے جب آپ ایک گھنٹہ گاڑی چلا کر مانجھر یا پھر آج کل بلوچستان کے سنہرا بیچ پر پہنچتے ہیں۔
 

image


’سنہرا ساحل‘ پر کشتیاں کھڑی کرنے کے لیے مناسب گھاٹ موجود نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ 'ساحل' دراصل ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ہے جو کبھی تو سمندری پانی سے بھر جاتا ہے اور پھر چند گھنٹوں بعد خشک ہو جاتا ہے۔ اس سب کا انحصار چاند کے اُتار چڑھاؤ پر ہے یا مقامی مچھیروں کی پیش گوئی پر کہ سمندری لہریں کب چڑھیں اور کب اتریں گی۔

آپ کو اپنی کشتی پر سوار ہونے کے لیے ٹوٹی ہوئی پرانی کشتیوں کے ڈھانچوں کو پھلانگ کر جانا پڑتا ہے۔ غوطہ لگانے کے لیے مناسب پلیٹ فارم بھی دستیاب نہیں ہوتا کیونکہ آپ مقامی مچھیروں سے خستہ حال کشتیاں لے کر جاتے ہیں جنھیں ’ڈونڈا‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل بڑے جہازوں کی لائف بوٹس ہوتی ہیں اور ان کا اوپر کا حصہ کاٹ کر ان میں موٹر لگا دی جاتی ہے۔ کشتیوں میں مچھلیاں رکھنے کی جگہوں پر ایئر ٹینک رکھے جاتے ہیں۔

٭ ماہرانہ مشورہ: آپ کشتی پر صرف ہوائی چپل پہنیں کیونکہ جوتے گیلے ہو جاتے ہیں۔

یہ ڈونڈے تقریباً چھ سے سات ناٹس یعنی گیارہ سے بارہ کلومیٹر فی گھنٹہ کی انتہائی سست رفتار سے چلتے ہیں اور آپ کو سکوبا ڈائیونگ کے لیے مقررہ مقام پر پہنچنے کے لیے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ ہی جاتا ہے۔
 

image


یہ کشتی پر کوئی مناسب جگہ دیکھ کر کچھ دیر کے لیے سستا لینے کا اچھا وقت ہوتا ہے خصوصاً اگر آپ پہلی مرتبہ غوطہ خوری کے لیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندری پرندوں کو بھی مچھلی پکڑنے کے لیے پانی میں غوطہ لگاتے دیکھنا ایک بہت دلچسپ نظارہ ہے۔

٭ ماہرانہ مشورہ: جب آپ کشتی ران یا مچھیرے کو 'وہ، وہ' چلاتے سنیں تو فوراً اس سمت میں دیکھیے۔ عموماً وہاں آپ کو چند ڈولفن پانی کے اندر اور باہر غوطے لگاتی نظر آئیں گی۔

مچھلیاں پکڑنے کے لیے انتہائی گہرے سمندر میں جانے والی کشتیوں کے ساتھ ساتھ اکثر ڈولفن سفر کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کشتی یا بحری جہاز کے پانی میں سفر سے پیدا ہونے والی لہروں کا تعاقب کرتی ہیں۔
 

image


جب آپ غوطے کے مقام سے دس، پندرہ منٹ کے فاصلے پر ہو تو سند یافتہ غوطہ خوروں کے لیے تیاری کا وقت ہے۔ اس وقت کشتی پر توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور مجھے (یا مجھ جیسی دیگر خواتین) کو تو اپنے کپڑوں پر ایک اور دھوتی سی باندھنی پڑتی ہے تاکہ غوطہ خوری کا لباس پہن سکوں۔

اس کام کے لیے بعض اوقات میں اپنے ساتھ ایک بڑے نیلے رنگ کا تولیہ نما کیپ لاتی ہوں جو مجھے ایک انسانی ٹینٹ میں تبدیل کر دیتا ہے جس سے صرف میرا سر باہر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے میں مجھے 'سمرف' اور ’ٹیلی ٹبی' جیسی عرفیتوں سے بھی پکارا گیا ہے لیکن اس سہولت کے سامنے یہ مذاق کوئی چیز نہیں۔

مگر ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا اب سے کچھ عرصہ قبل تک خواتین کو کشتی پر سوار ہونے سے پہلے ہی ساحل پر کار میں اپنا لباس بدلنا پڑتا تھا اور ہم تبھی اسے اتار سکتے تھے جب ہم چار پانچ گھنٹے بعد واپس ساحل پر پہنچتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اور یقین مانیں ویٹ سوٹ پہنے رہنا کوئی آرام دہ تجربہ نہیں ہے۔

٭ ماہرانہ مشورہ: ویٹ سوٹ کو گاڑی میں پہننے کے لیے کار کی پچھلی سیٹ پر آدھا لیٹ جائیں، سوٹ کا نچلا حصہ گھٹنوں تک چڑھا لیں، پھر سیٹ پر جھکتے ہوئے اوپر کے حصے کو پہن لیں اور کام مکمل۔ یہ آسان ہے۔
 

image


ان کشتیوں پر غوطہ خوری کے لیے کوئی مخصوص پلیٹ فارم نہیں ہوتا لہٰذا پانی میں اترنے کے تین طریقے ہیں۔

آپ کشتی کے کنارے پر سمندر کی جانب پشت کر کے بیٹھتے ہیں اور پھر الٹ جاتے ہیں، یا پھر ایک لمبی چھلانگ (جس میں آپ کا ساتھی سلینڈر پکڑتا ہے) یا آپ غوطہ لگا کر پانی میں سامان پہنتے ہیں مگر ایسا کرنا شروع میں آسان نہیں ہوتا۔

جب میں نے پہلی مرتبہ ایسا کرنا سیکھا تھا تب یہ صرف ہنگامی یا غیر معمولی صورتحال میں کرنے کے لیے کہا گیا تھا مگر پاکستان میں ہم ہر بار یہی کرتے ہیں۔ ویسے ہر وہ چیز جو میں نے سکوبا ڈائیونگ کی تربیت کے دوران سیکھی اور جسے میں نے صرف ہنگامی یا غیرمعمولی حالات میں استعمال کرنے کا سوچا تھا وہ اب ہم اپنی روزمرہ کی غوطہ خوری میں متعدد بار استعمال کرتے ہیں اسی لیے اب کچھ مشکل نہیں لگتا۔

اس سب میں ہمارے اکھڑ مزاج سمندر کو بھی مدنظر رکھیں جو ایک دن پرسکون ہوتا ہے تو اگلے دن زیرِ آب ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ زیر آب دیکھنے کی صلاحیت سات سے آٹھ میٹر اور کبھی کبھار دھند کے باعث تین سے چار میٹر ہوتی ہے۔ اگر آپ پاکستان میں غوطہ لگا سکتے ہیں تو دنیا میں کہیں بھی غوطہ لگانا آپ کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں۔

مگر سخت محنت کا بڑا انعام بھی ملتا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی خوبصورت ترین اور متنوع آبی حیات موجود ہے۔ سٹنگ رے مچھلی، دھبے دار مورے ایل، سٹون فش، بینرفش، بےبی بارکوڈا، پیرٹ فش، بڑے بڑے لوبسٹر اور پفر فش(جو ایک غبارے کی طرح دکھائی دیتی ہے) سے لے کر رنگ برنگی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور سیاہی پھینکنے والی چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے خاندان ہمارے سمندروں میں موجود ہیں۔

سیزن کے وسط میں آپ کو جھلی کی طرح کے شفاف انڈے دکھائی دیتے ہیں جو اکثر ایک ساتھ جڑے ہوتے ہیں ان کو سالپز کہا جاتا ہے۔ یہ ڈنگ نہیں مارتے بلکہ پانی سے کاربن ڈائی اکسائڈ صاف کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

تقریباً اسی وقت مونگے کی چٹانوں میں انڈے بھرنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے وہ ایک ساتھ سمندر میں چھوڑ دیتی ہیں۔ وہاں بڑی جیلی فش بھی پائی جاتی ہے جس کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے کیونکہ وہ بہت بری طرح ڈنگ مارتی ہیں۔
 

image

سمندر پلینکٹن (جل چریے) کی وجہ سے سبز ہونا شروع ہو جاتا ہے جو دن میں تو گندا اور دھندلا دکھائی دیتا ہے مگر رات میں چمکتا ہے لیکن اگر آپ اس پر روشنی ڈالیں تو یہ نہیں چمکے گا۔ تیرتے ہوئے یہ نباتاتی آبی حیات صرف چاند کی روشنی میں سمندر کی سطح کو روشن کرتے ہیں۔ اگر آپ ان دنوں میں بلوچستان کے کسی نسبتاً ویران ساحل کا رات کو دورہ کریں تو آپ کو یہ روشن دکھائی دے گا۔

ایک مرتبہ ہم رات کو غوطہ خوری کر کے واپس آ رہے تھے اور کشتی کی تمام لائٹس بند تھی اور ہم اپنے اوپر ستاروں سے روشن آسمان اور نیچے چمکتے سمندر کو دیکھ کر مکمل طور پر دنگ رہ گیے تھے۔ تب ہی میں نے اپنے پیر پر کسی جاندار کو اچھلتے محسوس کیا اور میں ڈر گئی تھی۔

غور سے دیکھنے پر علم ہوا کہ یہ ایک چھوٹی فلائنگ فش تھی جو بعد میں واپس پانی میں چلی گئی تھی۔ اس سے پہلے تک مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بھی ہمارے سمندر میں پائی جاتی ہے۔ پتا لگا کہ یہ اکثر رات کو آ جاتی ہیں۔

پاکستان میں بحیرۂ عرب میں واقعی بہت دلچسپ اور حیران کن نظارے پائے جاتے ہیں۔

Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: