تھکن کا وائرس

 ’’آج تو بہت کام کرلیا ہے ۔میں تو تھک کر چور ہو گیا ہوں۔میرا تو دل کرتا ہے کہ اب مجھے کوئی بلائے بھی نا‘‘۔ارسل نے نحیف آواز میں کہا
’’کیوں ایسا کیا تیر مار لیا تم نے ۔ جو اتنے ہی تھک گئے ہو‘‘۔نجم نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’یا ر بہت لمبی اسائنمنٹ تھی جو ابھی بنا کر فارغ ہو ا ہوں۔ اُسی اسائنمنٹ بنا نے میں مجھے بہت ٹائم لگ گیا‘‘۔
’’تو کیا تھکاوٹ کا تعلق وقت کے ساتھ ہے ‘‘۔
’’بالکل کیوں نہیں ۔اگر آپ ذیادہ دیر تک کام کرتے رہیں گے تو کیا تھکیں گے نہیں‘‘۔
’’لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ذیادہ دیر کام کرنے سے نہیں تھکتے بلکہ ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوتا ہے‘‘۔
’’میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا جو کہ ذیادہ دیر کام کرنے سے نہ تھکتا ہو۔ کوئی جن بھوت ہی ہو سکتے ہیں‘‘۔
’’ضروری نہیں ہے کہ جن بھوت ہی ایسے ہوں۔ انسان بھی اگر کوئی ایسا کام کررہا ہے جو اُسے دلی طور پر پسند ہے تو وہ کبھی بھی نہیں تھکے گا‘‘۔
’’تو تھکنے کا تعلق دلچسپی سے ہے‘‘۔
‘‘بالکل اگر آپ کو اپنے کام میں دلچسپی ہے تو آپ کبھی بھی تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوتے ۔ بلکہ آپ کو اس کام کو کرنے میں مزہ آنے لگ جاتاہے‘‘۔
’’اگر آپ اپنی پسند کا کام نہیں کررہے تو ہی آپ تھکیں گے وگرنہ نہیں‘‘۔
’’تھکاوٹ ایک ذہنی اختراع کا نام ہے۔تھکاوٹ ہمیشہ اُسی وقت ہوتی ہے جب ہم اس کو اپنے اوپر طاری کرتے ہیں۔ اگر ہم تھکاوٹ کو اپنے اوپر طاری نا کریں تو ہم کبھی بھی اس کا شکار نہیں ہونگے‘‘۔
’’آپ نے دیکھا ہو گا کہ بہت سے لوگ اٹھارہ سے بیس گھنٹے بھی کام کرتے ہیں اور کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف چند لمحوں میں ہی تھک کر چور ہو جاتے ہیں اور کوئی کام بھی نہیں کرسکتے‘‘۔
’’یہ تو ہے بہت سے لوگ بہت جلدی تھک جاتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘۔
’’اصل میں وہ لوگ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ان کی طبیعت آرام پسند ہو جاتی ہے ۔ اس میں ان کی ذاتی عادات بھی شامل ہوتی ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ ان کے والدین یا بڑے ہوتے ہیں ۔ اگر ان کے والدین ان کو زندگی کی تما م سہولتیں بغیر ان کے کہے فراہم کرتے ہیں اور ان کے والدین یہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنے بچوں کو خود کوشش کرنے کی عادت ڈالیں تو اس طرح کے بچے بہت جلدی تھک جاتے ہیں‘‘۔
’’لیکن ہر ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیا کی تمام آسائشات دے اور ہر ممکن سہولت فراہم کرے‘‘۔
’’بالکل درست ۔ لیکن ہم انہیں اتنی ذیادہ آسائشات بھی نہ دے دیں کہ وہ بالکل ہی بے کار ہو جائیں۔آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ امیر والدین کے بچے اکثر ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد تما م دولت کو ضائع کر دیتے ہیں اور اس کو سنبھال نہیں سکتے یا اس میں اضافہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ یہ ساری دولت کس قدر محنت سے کمائی گئی ہے۔ دولت کی حفاظت وہی کرتا ہے جس نے وہ دولت اپنی محنت سے کمائی ہو‘‘۔
’’لیکن چھوٹے بچوں سے تو کوئی بھی کام نہیں کرواتا‘‘۔
’’مقصد ان سے کام کروانا نہیں ہے بلکہ ان کو اس چیز کا احساس دلانا ہے کہ ان کی قدر اُسی وقت ہی بڑھے گی جب وہ محنت کریں گے اور جتنی ذیادہ دلچسپی سے وہ کام کریں گے اتنی ہی ان کو تھکاوٹ کم ہوگی۔ انگریزوں کے بچے اس قدر کامیا ب اسی لئے ہیں کہ وہ بہت جلد پیسے کمانا شروع کر دیتے ہیں اور جتنا ذیادہ وہ کما تے ہیں ان کے اعتما دمیں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور وہ لوگ بہت ہی کم عمری میں ارب پتی بن جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں جب تک بچے کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی تب تک وہ کوئی کام نہیں کر تا۔سب لوگ اس کی پڑھائی کی وجہ سے اس سے کوئی کام بھی نہیں کرواتے۔اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا جسم کام کا عادی نہیں ہوپاتا۔ جب وہ کوئی بھی ملازمت کرنے کے لئے جاتا ہے تو وہ اپنی آدھی زندگی تو سستی میں گزار چکا ہوتا ہے اور باقی آدھی زندگی وہ دوسروں کے سہارے گزار دیتا ہے اور کبھی بھی ایک مکمل اور کامیاب انسان نہیں بن پاتا‘‘۔
’’آخر اس تھکاوٹ کا کیا علاج ہے؟؟‘‘
’’یہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ تھکاوٹ سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اپنے آپ کو مصروف رکھا جائے ۔ اور اس طرح کے کاموں میں مصروف رکھا جائے جن میں آپ کو دلچسپی ہو۔پھر آپ کبھی بھی نہیں تھکیں گے۔ ہم کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ یہ کا م کرکے مجھے کیا فائد ہ ہوگا یا مجھے کتنے پیسے ملیں گے؟۔ انسان جانے انجانے بہت سے ایسے کام کرتا ہے جس کا اس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن دوسروں کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ لہذا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے فائدہ کی بجائے دوسروں کا فائدہ سوچنا چاہیے۔اگر آپ کے کسی عمل سے کسی دوسرے کو کوئی بھی فائد ہ ہو رہا ہے تو اﷲ آپ کو اس کا بدلہ ضرور دے گا ۔ہر وقت کسی نا کسی کام میں لگے رہیں ۔دوسرا طریقہ خود کو اس بات کا مسلسل احساس دلاتے رہنا ہے کہ میں نہیں تھکوں گا۔ جب تک آپ خود یہ احساس دلاتے رہیں گے آپ ہر گز نہیں تھکیں گے۔کام چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اس کے اوپر محنت ایک جیسی کریں ۔ کبھی بھی کسی کام کو کم تر نہ سمجھیں ۔ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں آپ کو بڑا اور کامیاب انسان بنا تی ہیں جو خود بھی نہیں تھکتا اور لوگ بھی اس کی تعریفیں کر کر کے نہیں تھکتے‘‘۔

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 80747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.