ایک طویل عرصے سے غیر مسلم قوتیں اسلامی ممالک میں مغربی
رسم و رواج کو عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک
پہنچانے کے لیے مختلف ڈیز کا آغاز کیا گیا جن میں ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہے۔
پوری دنیا میں بے حیائی اور فحاشی کو عام کرنے کے لیے اس دن کا سہارا
لیاجاتا ہے۔ محبت اور پیار کا نام دے کر الحاد و بے دینی، اخلاق باختگی،
فحش کاری اور فسق و فجور کی ترویج کی جاتی ہے۔ محبت کی آڑ میں بے حیائی کا
دن منایا جاتا ہے۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس دن کو منانے والوں میں
نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک و ملت کے
مستقبل کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فاتح القدس سلطان صلاح الدین
ایوبی کا مشہور قول ہے کہ "جس قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو اس قوم کے
جوانوں میں فحاشی و عریانی پھیلادو۔" کیونکہ کسی بھی ملک یا قوم کی بنیاد
اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ کسی ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے یا اس کی
تہذیب و تمدن کو مٹانے کے لیے نوجوانوں کی سوچ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ آج
اگر ہم ایک نظر اپنے ملک کو دیکھیں تو دشمنانِ اسلام مختلف طریقوں سے
نوجوانانِ ملت کو گمراہ کرنے میں مصروف نظر آئیں گے۔ انٹرنیٹ، میڈیا، جدید
تعلیم و دیگر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے نوجوانوں کا برین واش کیا جارہا
ہے۔ مذہبی ہم آہنگی، روشن خیالی اور انسانیت کے نام پر نئی نسل کے ذہن میں
اسلام کے خلاف نفرت بھری جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر
تعداد بے راہ روی کا شکار ہے۔
ایک مسلمان کو اپنی کامیابی شرعی اصول میں ہی سمجھنی چاہیے۔ بصورتِ دیگر
دنیا وآخرت میں کامیابی ممکن نہیں۔ ویلنٹائن ڈے پر ہونے والے خرافات کو ذہن
میں رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ تمام چیزیں اسلامی
اصول و قواعد کے مخالف نظر آئیں گی۔ کیونکہ اسلام کسی بھی صورت میں بے
حیائی اور فحاشی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو حیا اور پاکیزگی کا
درس دیتا ہے۔ حیا کی تعریف اور بے حیائی کی مذمت بیان کرتے ہوئے نبی کریم
صہ نے ارشاد فرمایا کہ "حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کا سب
ہے۔ اور بےحیائی جفا (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کاسبب ہے۔ " دراصل
حیا ایک ایسی خصلت ہے جو انسان کو بھلائی کرنے اور قبیح صفات، اقوال و
افعال کو چھوڑنے پر آمادہ کرتی ہے۔ حیا کو ترک کرنے کے بعد انسان کو بے
حیائی کی حدود پار کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ "جب تم
حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔" محدثینِ کرام نے اس حدیث کی تشریح بیان کی ہے
کہ یہاں امر بمعنیٰ خبر کے ہے۔ یعنی جب تم حیا نہیں کرو گے تو تمہیں کوئی
بھی برائی کرنے میں دقت محسوس نہیں ہوگی۔ اور جب گناہ، گناہ نہ لگے یعنی اس
کا احساس ختم ہوجائے تو اس سے زیادہ خطرناک بات اور کیا ہوسکتی ہے……!؟
حضرت عمر رضہ کا قول ہے کہ "اللہ کے دشمنوں سے ان کے تہوار میں اجتناب کرو۔"
لیکن افسوس کہ آج ہم کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانیت
اور اخلاقیات کے ڈھونگ سے مانوس ہوکر ہم دین کو ہی بھلارہے ہیں۔ ان کے
مذہبی و رسمی تہوار پر ہم نہ صرف انہیں مبارکباد دیتے ہیں بلکہ بے خوف ان
کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ آج کفریہ طاقتیں مختلف طریقوں سے ہمیں
اپنے ہی خلاف استعمال کررہی ہیں اور ہم بآسانی ان کے جال میں پھنستے چلے
جارہے ہیں۔ بظاہر تو ہم بےحیائی اور فحاشی کی مخالفتکرتے ہیں لیکن ویلنٹائن
ڈے جیسے دن منا کر ہم بےحیائی اور فحاشی کی ترویج کررہے ہوتے ہیں اور ہمیں
پتہ بھی نہیں چلتا۔ ان تمام کمزوریوں کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری
ہے۔
زندگی کے ہر ایک شعبے میں اسلام نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان
کے لیے یہ قطعًا لائق نہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات سے اعراض کرکے غیروں کی
تہذیب کو اپنا شعار بنالے۔ جو کام اسلامی قوانین کے مخالف ہیں ان سے اجتناب
ہی ایک مسلمان کے حق میں بہتر ہے۔ آئیے! بے حیائی اور فحاشی کا قلع قمع
کرنے کے لیے ایک قدم اٹھائیں۔ 14 فروری کو حیا کا دن منائیں۔ ؎
تحفیظ حیا میں ہے،
مرجھائے ہوئے پھولو!
تقدیس حیا میں ہے۔
دھوکا ہے ویلنٹائن،
اے قوم کے فرزندو،
تم طفل ہو، یہ ڈائن۔
|