کائنات ،محبت اور فقیر

تم ڈر رہے ہو،اس نے سرگوشی آمیز لہجے میں ہولے سے کہا۔مجھے لگا جیسے میرے ذہن میں کوئی بول رہا ہے ۔میں چلتے چلتے چونک کر اپنے دائیں طرف پلٹا تو مجھے بولنے والا نظر آگیا۔وہ ایک عجیب سے ہلیے میں ملبوس درمیانی عمر کاشخص تھا۔نہیں تو ۔میں کیوں اور کس سے ڈروں گا۔میں نے اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کرکے جلدی سے بولا ۔میری آواز میں ہلکی سی لرزش شامل تھی۔اس کے چہرے پر عجیب طمانیت اور روشنی تھی ۔لباس بہت زیادہ میلا کچیلا تھا۔مگر اس کے پاس سے خوشبو کے ہلکے ہلکے جھونکےآتے محسوس ہورہے تھے۔میں اس کو بالکل بھی نہیں جانتا تھا۔

میں اپنی آخری کلاس پڑھ کر یونیورسٹی آف لاہور سے نکل کر اپنے ہوسٹل کی طرف اکیلا شیر علی روڈ پر چل رہا تھا۔اندھیرے کی چادر نے دھیرے دھیرے مناظر کو اپنی چادر میں لپیٹنا شروع کردیا تھا۔

ہوسٹل تک کوئی ایک کلومیٹر کا سفر تھا۔اندھیرے میں سڑک پر اکیلا چلتے ہوئےذہن میں ہزاروں وسوسے اور وہم بسیرا کیے ہوئے تھے۔ہر آہٹ پر ڈر سا لگ رہا تھا۔ایسے میں ہی اندھیرے سے وہ وقوع پذیر ہوا تھا۔
اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ اندھیرے کے باوجود وہ صاف نظرآرہا تھے۔گلے میں دھیڑوں مالائیں لٹکائے ہوئے وہ شخص میرے ساتھ ساتھ ایسے چل رہا تھا جیسے وہ مجھے صدیوں سے جانتا ہو۔

تم ڈر رہے ہو۔دیکھو تمہارے ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔وہ دھیرے سے بولا۔میں نے جلدی سے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔وہ ہولے ہولے سے لرز رہے تھے۔میں نے کوئی بھی جواب دیے بغیر اپنی رفتار تیز کردی ۔وہ میرا ساتھ ساتھ تھا۔دیکھو ڈرو نہیں۔میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔اس نے ملائمت سے کہا۔میری ڈھڑکن تیز ہورہی تھی اور میری سانس پھول رہی تھی۔وہ خاموش سا ہوکر پیچھے رک گیا۔رکو تم میری پوری بات سنے بغیر نہیں جاسکتے میں تمہیں بڑی مشکل سے ڈھونڈا ہے۔

میں پلٹا توجیسے پتھر کا ہوگیا۔وہ جیسے مقناطیسی نگاہوں سے مجھے روک رہا تھا۔میں ایک بھی قدم آگے بڑھانے سے قاصر تھا۔وہ سڑک کنارے ایک ٹوٹے بینچ پر بیٹھ گیا۔میں اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

نوجوان تم مایوس ہو۔ڈر رہے ہو ۔کچھ پریشان بھی ہو۔اپنے پہچان سےناآشنا ہو۔دیکھو تم ایک بہت اہم ہو۔اس کائنات کی ہر چیز کی طرح اہم ہو۔تمہارے اندر ایک نہایت قیمتی چیز سرایت انگیز ہے ۔وہ چیز زندگی ہے۔وہ بول جارہا تھا ۔اور مجھےاس کی فلاسفی کی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔مگر ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی آواز دل و دماغ میں خود بخودجذب ہوتی جارہی تھی۔

اس درخت کو دیکھو میں نے سیاہی کی چادر میں لپٹے سڑک کنارے گھوشے میں کھڑے درخت کو دیکھا جس کی ٹہینیوں پر سٹریٹ لائٹ کی روشنی چمک رہی تھی۔

کائنات کی ساری چیزوں کو ایک دوسرے سے محبت ہے ۔بگ بینگ کے بعد کائنات بکھر کر ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گئی تھی اب دوبارہ سے جڑنا چاہتی ہے۔اسی وجہ سے کشش ثقل ہے ۔چاند کی زمین کے گرد چکر کاٹنے کی بھی یہی وجہ ہے۔زمیں بھی اس محبت میں سور ج کا طواف کررہی ہے۔اور سب سے چھوٹے ترین ذرے میں الیکٹران نامی ذرہ بھی نیوکلیئس کے گرد محو طواف ہے۔یہ سب محبت ہے ۔

کیا تم نے کبھی محبت کی ہے۔اس نے سوال کیا۔میں اس کے گردآلود بالوں سے بنی زنجیروں کو دیکھ رہا تھا۔محبت ،میری آواز میں کسی دوسرے نے جیسے بولا تھا۔ دیکھو اس درخت کو تم سے محبت ہے ۔اس سڑک کو تم سے محبت ہے ۔اندھیرے کوتم سے محبت ہے ۔مجھے اس کی یہ بات بلکل بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔مجھے لگا جیسے وہ کوئی بہروپیا تھا۔جس نے کسی فقیر جیسا ہلیہ بنا رکھا تھا۔

دیکھو نوجوان وہ خاموش درخت تمہارے لیے فضا سے وہ چیز جذب کررہا ہے جس سے تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اور تمہارے لیے صاف ستھری آکسین کا انتظام کررہا ہے ۔تاکہ تمہارے اندر زندگی کی حرارت برقرار رہے اور اس سڑک اور اس کے نیچے زمین تمہارے لیے بچھی پڑی ہے تاکہ تمہارے پاؤں اس پر چل سکیں۔اور تم اپنی منزل کی طرف پہنچنے میں ذرا دشواری نہ ہو۔

اور جس اندھیرے سے تم خوفزدہ ہو۔ڈر رہے ہو ۔مگر یہ اندھیرا تم سے محبت رکھتا ہے ۔یہ تمہاری آنکھوں کو سکون فراہم کرنا چاہتا ہے جو سارے دن کی روشنی کی وجہ تھک چکی ہے۔اس اندھیرے کی سیاہی نے تمہاری تھکان کوجذب کرنا ہے۔

مجھے وہ ٹرانس میں لے چکا تھا میں گم سم بیٹھا اس عجیب و غریب اور پرسرا ر شخص کی باتیں سن رہا تھا۔ناجانے وہ کون تھا۔اور مجھے کیوں یہ سب سنا رہا تھا۔

تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے۔یہ سب چیزیں جن سے تمہیں خوف محسوس ہوتا ہے ۔تمہیں زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔تمہاری نگہبانی کررہی ہیں ۔تمہارے لیے فائدے کی راہیں تلاش کررہی ہیں۔تم سے محبت رکھتی ہیں ۔تمہارے وہم اور اندیشے بے بنیاد اور بے وجہ ہیں۔تمہاری مایوسی کم علمی کا نتیجہ ہے۔

میں نے دیکھا اس کے چہرے اورآنکھوں میں روشنی کی لکیریں بھاپ کی صورت میں نکل کر ٖفضا میں تحلیل ہورہی تھی۔

غور کرو اگر تم کائنات کا ہر پتھر ،ہر پودہ،ہر ذرہ ،ستارے ،سیارے،اندھیرے اور روشنیاں ،ایک مخصوص ڈگر میں دوبارہ سے جڑ کر پہلی حالت میں آنا چاہتی ہیں۔جو کہ بگ بینگ سے پہلے تھی۔جو کائنات کا نقطہ آغاز تھا۔اس نے اپنی انگلیوں کو گماتے ہوئے فزکس کے کسی ماہر پروفیسر کی طرح کوئی الجھی ہوئی گتھی سلجھانے کی کوشش کی۔

اس ستارے کی طرف دیکھو۔اس کو زمیں سے اتنی محبت ہے کہ وہ اپنے وجود کو جلاتے ہوئے ختم کررہا ہے۔اور اس کی روشنی لاکھوں سالو ں پر محیط سفر طے کر کے زمین تک پہنچتی ہے ۔اور زمین اس روشنی سے زندگی کے وجود کو برقرار رکھتی ہے۔

پودے اس روشنی سے اپنی خوراک تیار کرتے ہیں ۔اور تمہاری جلد اس سے اپنے وجود کے ضروری اجزاء مکمل کرتی ہے ۔کروڑوں میل دور سورج صرف صرف زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے جل رہا ہے۔اس کے جلنے سے زمین اور اس پر موجود زندگی اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔اب وہ ایک استاد کے لہجے میں بول رہا تھا جو اپنے شاگردوں کو زندگی کے پیچیدہ اسرار و رموز سےآگاہ کررہا ہوتا ہے۔میں اس کے سامنے بالکل جامد بیٹھا تھا۔میری آواز یکسر خاموش تھی ۔اور سماعتوں میں جیسے اس کی آواز کے علاوہ کوئی آوازنہیں تھی۔

دیکھو یہ سب چیزیں سورج ،ستارے ،چاند ،اندھیرہ،درخت ،پتھر زندگی سے محبت اس لیے کرتے ہیں کیونکے ان کو زندگی جو کائنات میں سب سے ذیادہ اہم ہے اس سے محبت پر معمور کیا گیا ہے ۔ ۔
اس نے اچانک اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔میں نے دیکھا میرے ہاتھ تپنا شروع ہوگئے ۔اس نے دو سیکنڈ کے وقفے کے بعد ہاتھ ہٹالیے۔میرے ہاتھ کی پشت پر سرخ رنگ نشان تھا۔
وہ اٹھا اور چلتا ہوا اندھیر ے میں گم ہوگیا۔میں نے اسے آواز دینی چاہی مگر میرے ہونٹ صرف پھڑ پھڑا کر رہ گئے ۔
اٹھو چلیں تم کلاس میں سو رہے ہو۔

میرا دوست مجھے آواز دے رہا تھا۔میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔او تو یہ خواب تھا۔میرے ہاتھوں پر جلن ہورہی تھی ۔میں نے دیکھا اس پر سرخ نشان نظر آرہا تھا۔

Faraz Ahmad Rana
About the Author: Faraz Ahmad Rana Read More Articles by Faraz Ahmad Rana: 2 Articles with 1412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.