انڈونیشیا کی پولیس نے ایک مشتبہ چور کو تفتیش کے دوران
سانپ سے ڈرانے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد معافی مانگی ہے۔
سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشرقی پاپوا میں سانپ سے ڈر
کر چیخیں لگاتے ہوئے ہتھکڑیوں میں جکڑے ایک شخص کو دیکھ کر پولیس اہلکار
ہنس رہے ہیں۔
|
|
خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مشتبہ شخص نے موبائل فونز چوری کیے ہیں۔
مقامی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ یہ انتہائی غیر پیشہ ورانہ عمل ہے تاہم
انھوں نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سانپ مانوس تھا اور اس کا زہر نکال
لیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق مقامی پولیس کے سربراہ ٹونی آنندا سودایا نے ایک بیان میں
کہا ہے کہ ’ہم نے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہے، تاہم پولیس
اہلکاروں نے اس شخص پر جسمانی تشدد نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان اہلکاروں نے اپنے تئیں یہ عمل کیا تاکہ مشتبہ شخص سے
اقبالی بیان لیا جا سکے۔‘
|
|
انسانی حقوق کی وکیل ورونیکا کومن نے اس سارے واقعے کی ویڈیو ٹویٹ کرتے
ہوئے دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے حال ہی میں پاپوا کی آزادی کے ایک حامی
کارکن کو سانپ کے ساتھ جیل میں رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ویڈیو میں میں ایک آواز سنائی دیتی ہے جو سانپ کو اس شخص
کے منہ میں ڈالنے اور اس کے پاجامے کو نیچے اتارنے کا کہہ رہی ہے۔
پاپوا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات عام ہیں، جہاں علیحدگی
پسند ایک طویل عرصے سے انڈونیشیا سے آزادی کے خواہاں ہیں۔
قدرتی ذخائر سے مالا مال یہ علاقہ پاپوا نیو گینی کی سرحد پر ہے جو سنہ
1969 میں انڈونیشیا کا حصہ بنا تھا۔
|