اس خاکسار نے اسی موضوع پھر چند
دن پہلے ایک آرٹیکل پیش کیا تھا۔ آج اسی سلسلے کا دوسرا آرٹیکل پیش خدمت ہے۔
میں نے پہلے آرٹیکل میں اس روایت کے بیان کرنے والوں کے بارے میں مشہور
محدثین کی رائے پیش کی تھی۔ ان محدثین نے ان میں سے بعض راویوں کو کذاب یا
مجھول ثابت کیا تھا۔ میرے ایک محترم بھائی نے اس پر اعتراض کیا کہ میں نے
ضعیف روایتوں کو موضوع کیوں کہہ دیا۔ میں نے جواب میں ثابت کیا کہ موضوع
روایت بھی ضعیف روایت کی ایک شکل ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ ایک کذاب راوی
کی روایت پر کیوں کر عمل کریں گے جب کہ اس کا کذب ثابت ہے۔اور پھر جب نبی
پاک کی شان میں مستند احادیث موجود ھیں تو آپ کی شان بیان کرنے کے لیے ضعیف
اور موضوع احادیث کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے۔ عام زندگی میں بھی آپ
جھوٹے شخص کی گواہی قبول نہیں کرتے ۔ يہاں تو احادیث کا معاملہ ہے۔ یہاں تو
زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ دو احادیث مسلم سے بیان کرتا ہوں۔
•حفص بن عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
کافی ہے آدمی کے جھوٹ ہونے میں یہ بات کہ وہ سنے اس کو آگے بیان کردے۔
•ابن وھب سے روایت ہے کہ امام مالک نے مجھ سے کہا کہ جان لو اس بات کو کہ
جو شخص کہہ ڈالے اس بات کو جس کو وہ سنے وہ بچ نہیں سکتا اور کبھی وہ شخص
امام نہیں ہو سکتا جو بیان کرے ہر ایک بات کو جس کو وہ سنے۔
•ایک اور حدیث کا پہلا حصہ پیش خدمت ہے۔ عامر بن عبدہ سے روایت ہے کہ
عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ شیطان ایک مرد کی صورت میں لوگوں کے پاس آتا ہے
پھر ان سے چھوٹی حدیث بیان کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان احادیث سے ایک اصول ثابت ہوتا ہے وہ یہ کہ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ
وہ جو حدیث بھے سنے اس کی صحت کے بارے میں ضرور تحقیق کر لے۔
اب آپ کی خدمت میں نبی ام ایمن کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب
پینے کے بارے میں پیش کی گئی روایات کی اسناد اور ان کی تحقیق پیش کرتا
ہوں۔
المستدرک 4/63 قال: أخبرنا أحمد بن كامل القاضي، حدثنا عبد الله بن روح
المدايني، حدثنا شبابة، حدثنا أبو مالك النخعي، عن الأسود بن قيس، عن نبيح
العنزي، عن أم أيمن رضي الله عنها قالت: قام النبي صلى الله عليه وسلم من
الليل إلى فخارة.... الحديث.
«دلائل النبوة» (2/158) قال: حدثنا أحمد بن سليمان، قال: حدثنا الحسن بن
إسحاق، حدثنا عثمان بن أبي شيبة، قال: حدثنا شبابة بن سوّار، حدثنا أبو
مالك النخعي به
وأخرجه الطبراني في «المعجم الكبير» (25/85) في سند أم أيمن أم أسامة بن
زيد مولاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ح (230) قال: حدثنا الحسين بن
إسحاق التستري، حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا شبابة بن سوار، حدثني أبو
مالك النخعي به.
ان تمام روایتوں میں ابو مالک النخعی مشترک ہے جس کا نام عبد الملک بن
الحسین ہے۔ اس کے بارے میں مشہور محدثین کی رائے حوالہ جات کے ساتھ پیش
کرتا ہو۔
•امام نسائی اسے متروک کہتے ہیں۔ ( الضعفاء و المتروکین ص 383)
•دار قطنی اس کے بارے میں کہتے ہیں۔ (عن البصریین و الکوفیین---- الضعفاء و
المتروکین 363)
•امام ابی حاتم الجرح و التعدیل2/2/347 میں اسے ضعیف الحدیث کہتے ہیں۔
•امام ابن عدی الکامل 5/303 میں کہتے ہیں کہ ہم سے علان نے بیان کیا ان سے
ابن مریم نے کہ میں نے یحی بن معین سے ابو مالک النخعی کے بارے میں دریافت
کیا تو انہوں نے فرمایا کہ " کچھ نہیں ہے"۔
•امام بخاری الضعفاء و الصغیر 219 میں اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ میرے
نزدیک قوی نہیں ہے۔
•حافظ ابن حجر نے التھذیب میں فرمایا کہ عمرو بن علی نے اسے ضعیف منکر
الحدیث، الآزدی اور نسائی نے اسے متروک الحدیث کہا ہے۔ (12/240/1006)
ان تمام حوالہ جات پر غور کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ جس روایت میں کوئی
راوی متروک الحدیث، منکر الحدیث، ضعیف الحدیث ہو تو اس کی حیثیت ہو سکتی
ہے۔
ایک اور بات اس بارے میں غور طلب ہے کہ جب آپ کے بول میں پیٹ کے درد کا
علاج موجود تھا تو اس بات کی مثال کیوں نہیں ملتی کہ آپ نے کسی پیٹ کے درد
کے مریض کو اسے بطور علاج پلایا ہو۔ اور ان احادیث کی تحقیق کرتے ہوئے ایک
جگہ پڑھا کہ آپ کا بول و براز خون وغیرہ پاک ہے مگر اس بارے میں مجھے کوئی
صحیح احادیث نہیں مل سکی جس میں آپ نے یا صحابہ کرام نے ایسی کوئی حدیث
بیان کی ہو۔ اگر اس بارے میں کسی محترم بھائی کے پاس کوئی صحیح حدیث ہو تو
میری اور قارئین کی معلومات کے لیے یہاں لکھ دے۔
اللہ ہم سب کو دین کی بہتر سمجھ عطا کرے۔ |