تجارتی بنیادوں پر جس معاشی
خوشحالی کو اسلامی نقطہ نظر سے تقویت حاصل ہے اس میں بہت سے امور بڑی
انفرادیت کے حامل ہیں
.1 مالک مال کا اپنی چیز کو خود فروخت کرنا ۔
.2 مالک مال کا اپنی چیز کو فروخت کرنے کےلئے اپنا نائب ، قاصد یا وکیل
مقرر کرنا
.3 نائب یا قاصد یا وکیل کو اجرت پر معاملات فروخت کو طے کرنے کےلئے مقرر
کرنے کا جواز ہونا
.4 نائب و قاصد و وکیل کو یہ اختیار حاصل ہونا کہ وہ اس کی طرف سے مال خرید
بھی سکے اور مال کی فروخت کو بھی یقینی بنا سکے ۔
.5 حقوق ملکیت کا وسیع تر تحفظ ۔
.6 باقاعدہ مستقل تجارتی پر امن ماحول کی صورت کا قائم کرنا ۔
.7 مالی ، معاشی ، تجارتی، اور اقتصادی بحالیات کےلئے مال کا منڈی تک
پہنچنے کی صورتوں کو جائز خرید و فروخت کے لئے شرط قرار دینا ۔
.8بائع و مشتری کے زیادہ سے زیادہ حقوق کا تحفظ ،تجارتی ماحول کا امانت و
دیانت سے قائم رہنا اور بعد فروخت معاشی تحفظات کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشی
و تجارتی فوائد کے تناظر میں معاشی و اقتصادی تحفظ مہیا کرنا ۔
تجارت اپنے دائرہ منفعت کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ۔
.1 داخلی تجارت
.2 خارجی تجارت
داخلی تجارت سے مراد ایسے تجارتی باہمی معاملات ہیں جو مقامی علاقہ اور
مقامی لوگوں کے درمیان واقع ہوتے ہیں اور خرید و فروخت کے امور علاقائی سطح
پر ہی اپنے نتائج تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اسی طرح یہ تجارت ایسے مال پر ہو رہی
ہوتی ہے جو لوگوں کے سامنے موجود ہوتا ہے اور ان کی اپنی کاوشوں کے نتیجے
کی صورت میں حاصل ہوا ہوتا ہے ۔ چاہے یہ صورت زرعی ہو ، صنعتی ہو، حرفتی
ہویا کسی اور ذریعہ سے تیارہ کردہ ہو ۔
خارجی تجارت سے مراد وہ معاملات خرید و فروخت ہیں جو قوموں اور گروہوں کے
درمیان واقع ہوتے ہیں ۔ ایک ملک سے مال خرید کر دوسرے ملک کی طرف منتقل
کرنا جس میں حکومتی نگرانی اور تحفظ شامل ہو خارجی تجارت ہے ۔خارجی تجارت
کے یقینی ہونے کی صورت حکومتی ذریعے سے وابستہ ہے ۔ غیر مسلموں کے ساتھ
تجارتی معاہدے اور تجارتی معاملات طے کرنا جائز ہے ۔ شریعت اسلامیہ نے اس
پر کوئی قدغن نہیں ۔ سرکار دو عالم معلم و مقصود کائنات ﷺنے حضرت ثمامہ ؓ
کو سامان رسد اہل مکہ کے لئے لے جانے کا حکم دیا اور اہل مکہ اس وقت آپ سے
بر سر پیکار تھے۔ لہٰذا غیر مسلموں کے ساتھ یا درالحرب میں مسلمان تاجروں
کا جانا اور تجارت کرنا ثابت ہوااور یوں ہی دور صحابہ میں ہوتا رہا جس پر
ممانعت کا کوئی حکم و فعل ثابت نہیں ۔ لہٰذا عمل اور عدم امتناع اجماع کو
ثابت کرتا ہے ۔اہل اسلام کے لئے اسلامی ملکوں اور علاقوں میں آزادانہ خرید
و فروخت کا نظریہ اور تصور سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہ و صحبہ و سلم نے
عطا فرمایا آپ نے ثقیف ، بحرین اور دومة الجندل کے باشندوں کے لئے حکم
فرمایا کہ ان سے ٹیکس لیا جائے اور نہ عشر وصول کیا جائے ۔ زمانہ جاہلیت
میں جو دسواں حصہ چنگی کے طور پر لیا جاتا تھا اسے باطل قرار دیا گیا ۔ اسی
طرح احکام تجارت تاجروں کے اعتبار سے مختلف ہونگے ۔ اگر تاجر حکومت اسلامیہ
کی رعایا ہو خواہ وہ مسلم ہے یا ضمی تو اس کی تجارت پر کوئی ٹیکس نہیں لیا
جائے گا ۔ حضرت عامر ابن عقبہ ؓ سے روایت ہے کہ معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ
علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کہ ٹیکس لینے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔ اور
حضرت رویضع ابن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ معلم و مقصود کائنات صلی اﷲ علیہ و
آلہ و صحبہ وسلم نے فرمایا چونگی لینے والا جہنم رسید ہوگا ۔ آپؓ فرماتے
ہیں کہ عاشر سے مراد وہ ہے جو باہر آنے والے تجارتی مال پر عشر وصول کرے ۔یونہی
حضرت عمر ابن عبدالعزیز ؓ نے عدی بن ارطاة کو لکھا کہ لوگوں سے فدیہ ،
مائدہ اور چونگی ہٹا دو یہ مکس ( محصول ٹیکس یا چونگی )نہیں نجس ہے اور جو
کوئی صدقہ لائے اسے قبول کر لو ۔ حضرت عمر ابن خطاب ؓ نے بھی مسلمان تاجروں
یا ضمیوں سے کوئی ٹیکس نہیں لیا ۔ حربی تاجر سے وہی کچھ لیا جائے گا جو اس
سے اس کی حکومت لیتی ہے یا اس کے ملک کی حکومت جس قدر سے مسلمانوں سے وصول
کرتی ہے وہی اس سے وصول کی جائے گی ۔حضرت عمر ؓ سے لوگوں نے پوچھا آپ اہل
حرب سے کیا لیں گے جب وہ ہمارے ملک میں تجارت کی خاطر آئیں۔ تو آپ ؓ نے
فرمایا جب تم ان کے ملک میں جاتے ہو تو وہ کیا لیتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا
عشر فرمایا تو تم بھی اسی طرح ان سے لو گے ۔ حضرت فاروق اعظم ؓ کے دور
خلافت میں بارہ کروڑ دینار جزیہ کی رقم اکٹھی ہوا کرتی تھی جو خلافت ٹوٹنے
کے بعد کم ہوتی چلی گئی ۔ لہٰذا اس رقم کے تناسب سے زکوة ، خیرات ، صدقات
اور مال مفروض کی صورت میں جو رقم اکٹھی ہوتی ہوگی ریاست اور اہل ریاست کی
ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وہ کس حد تک ہوتی ہوگی یہ دلیل ہے کہ اسلامی
نظام ہی ہماری ہمہ جہتی ، خوشحالی، ترقی ، اصلاح ، نیک نامی اور قدرت کے
اصولوں پر کار بند ہونے کی ضمانت ہے ۔
خلافت اسلامیہ میں نظام عدالت
قرآن کریم نے عدل و انصاف کو اسلامی معاشرہ کا امتیاز قرار دیا ہے۔ اسلامی
نظام کا تسلسل اور معاشرتی و انسانی درجات میں مساوات اور ہم آہنگی آئین کی
بالادستی کے مرہون منت ہے ۔ اسلام میں ریاست کے تمام شعبہ جات اور اہل
ریاست کے تمام معا ملات اور معمولات کو قالب عدم میں ڈھالا گیا ہے ۔ ارشاد
خداوندی ہے ۔ اِعدِلُوا ھُوَاَقرَبُ لِلتَّقوٰی o عدل و انصاف قائم رکھو
کیونکہ یہ ہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ۔ اسلام کے نظریہ عدل و انصاف نے
خانگی معاملات سے آخرت کے امور تک کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔ یعنی اسلامی زندگی
کا کوئی پہلو اور اہل اسلام کا کوئی عمل عدل و انصاف کی حدود و قیود سے
خالی و عاری نہیں ہو سکتا۔ خالق و مالک کائنات کا فرمان ہے ۔
اِن اَﷲَ یَا مُرُبِالعَدلِ وَ الاِحسَانِ وَاِیتَائِ ذِی القُربٰی وَ
یَنہٰی عَنِ الفَحشَآئِ وَالمُنکَرِ وَ البَغی۔ بے شک اﷲ خالق و مالک
کائنات حکم فرماتا ہے عدل و انصاف کے قائم رکھنے کا اور حسب دستور نیکی بجا
لانے کا اور یہ کہ قرابت داروں کا حق باحسان ادا کیا جائے اور فحاشی و
برائی و بغاوت سے رکا جائے ۔ اس آیة کریمہ نے اسلامی معاشرے کی حقیقی تصویر
، آئینی و قانونی حقیقی بنیادوں کے ساتھ پیش کی ۔ کہ عدل و انصاف اور نیکی
کا تصور جن خاندانی ،قبائلی ،قومی ،نجی ، مالی، بدنی، فکری،ذہنی ، تقابلی،
نظریاتی ، عملی، تنظیمی و تحریکی حسن و خوبی کی ضمانت ٹھہرے گا وہ قانون
قدرت کی بالا دستی سے وابستہ ہے ۔
اسلام کا عدالتی نظام معاشرہ کے آئینی ، قانونی،اخلاقی، تجارتی، وراثتی،
مالی، خاندانی، معاشی، اقتصادی، اجتہادی نوعیت کے امور کے تصفیہ اور حقوق
کے مکمل تحفظ کے لئے ہے ۔
خلافت اسلامیہ میں اصول سیاست
اسلام کا نظریہ سیاست عوام کی فلاح ،ان کا معاشی تحفظ، ان کی تعلیم و تربیت
، ان کے عزت نفس کی بحالی، تمام بنیادی حقوق کی بحالی اور ان کا تحفظ ،
دینی ،عملی اور عمومی طرز زندگی میں مطابقت و اصلاح ، معاشرتی ، معاشی
،اقتصادی ، علمی ، دینی، روحانی، سماجی،تجارتی، آئینی ، عدالتی ،فنی،
تکنیکی ضروریات کو انسانی فلاح کے نظریے کے تحت اسباب و وسائل کی بکثرت و
آسان فراہمی سے پورا کرنا اور مخلوق کو خالق اور اس کے رسول معلم و مقصود
کائنات صلی اﷲ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی اطاعت پر مضبوط بنانا ہے ۔ قدرتی
و ریاستی وسائل کو رعایا کی فلاح کے لئے ان تک رسائی اور دستیابی یقینی
بنانا اسلامی نظریہ ریاست کی فلاحی نوعیت کا جزو ہے ۔
خلافت اسلامیہ کا نظام احتساب
اسلام ایک مکمل ضابطہ کائنات ہے اسے ضابطہ حیات سمجھنا اس کی جامعیت و
آفاقیت سے نابلد یا جاہل ہونے کی دلیل ہے ۔ اسلام کائناتی حقائق پر محیط ہے
اور تمام کائناتی حقیقتوں کا آئین ہے جو کہ کتاب و سنت کی صورت میں پایا
جاتا ہے ۔ جس میں ہر چیز کا ذکر اور ہر تنازعہ کا حل اور فیصلہ موجود ہے ۔
انسانی لغزشوں اور خطاؤں اور اس کے غیر یکساں مزاج و طبیعت و خواہشات کے
پیش نظر ضرورت اصلاح و تربیت و احتساب سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اسلام ایک مکمل دین ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسلام کو دین کامل قرار دینے
والا پوری کائنات کا خالق ہے جو کائنات کی حقیقتوں کو مقرر کرنے والا اور
پھر انہیں ان کے انجام سے ہم کنار کرنے والا ہے ۔ دنیا کی تمام طاقتیں ،
صلاحیتیں اور توانائیاں جس کے حضور بہرطور سرنگوں ہیں وہ بارگاہ کبریاءحق
ہے ۔ اس نے اپنی قدرت کی تمام توانائیوں کے ساتھ بے مثال دین او ر بے نظیر
معلم دین عطا فرمایا ۔
آج کے دور میں بعض خود ساختہ دینی دانشوروں کو نہ معلوم کونسی ذہنی اور
علمی بیماری لاحق ہے کہ وہ ضابطہ ازلی ، آئین فطری کی موجودگی میں کسی خود
ساختہ شریعت بل کے پاس کروانے کی بلائے بے درماں اور خواہش بے لذت اور
جستجوئے بے حقیقت کے پیچھے انفرادی اور اجتماعی طور پر سر پٹ دوڑے چلے جا
رہے ہیں ۔ ان کی یہ غیر آئینی کاوش نہ معلوم کس طرح اسلامی ٹھہری قوم کو یہ
سب کچھ دیکھنا اور سہنا پڑ گیا ہے ۔اسلام کے آئین کو ہر گز توڑنے مروڑنے کی
اجازت نہیں ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ ہے تا حال نفاذ اسلام کے حوالے سے جس حد تک دعوے اور
تحاریک معرض وجود میں لائے گئے انہیں دل بہلانے والی باتوں سے زیادہ کی
حیثیت حاصل نہیں ۔ اسلام کے ریاستی نظام کے مثالی تجربہ کا تیس سالہ دورہر
اعتبار سے بہترین دور تھا۔
فرد کی انفرادی ریاستی وابستگی اور آئینی آگہی کے حوالے سے حریت کا عالم یہ
تھا کہ خلیفہ دوم امیر المومنین عمر ابن خطاب ؓ سے دوران خطبہ ایک شخص نے
پوچھا کہ آپ کا لباس جس چادر سے بنا ہے یہ وہی ہے جو سب میں تقسیم ہوئی
۔مگر وہ تو اس قدر چھوٹی تھی کہ لباس کا بننا ممکن نہیں ۔ آپ کا لباس اس سے
کیونکر بن پایا ۔ اس سوال کا جواب دیا جائے اور پھر خطبہ دیں ۔ آپ ؓ نے
اپنے بیٹے عبداﷲ ابن عمر ؓ کو حکم دیا کہ وہ لباس کے معاملہ میں اظہار
حقیقت کریں آپ نے بتایا کہ جو چادر ان کے حصے میں آئی تھی وہ انہوں نے اپنے
والد بزرگوار کو پیش کردی جس کی وجہ سے لباس کا مکمل بننا ممکن ہوا۔ اسلام
کا نظام احتساب اور آئینی بالا دستی قائم کرنے کا نظریہ ایسی ہی حقیقتوں پر
ہوتی ہے ۔ اسلامی طرز ریاست میں ریاست کے ہر فرد کو ریاستی ذمہ داری رکھنے
والے افراد کے محاسبہ کا ہمہ وقت پورا پورا حق حاصل ہے ۔ شریعت مطہرہ میں
ایمان و احتساب پر بڑا زور دیا گیا ۔ محاسبہ نفس سے لے کر حکام ریاست کے
محاسبہ تک کی تمام منازل آئین کی بالادستی اور حق کے ساتھ تعلق کی مضبوطی
کی ضمانت ہیں ۔ ذہن و کردار کی تعمیر اور آئین سے آگاہی کی بدولت ہی انسان
آئین کی صحیح اور مکمل پاسداری کے قابل ہو سکتا ہے اور ایسی صلاحیت رکھنے
والے افراد و معاشرہ جاندار اور نتیجہ خیز احتساب کی صلاحیت کے اہل ہیں ۔
دعوت الی الحق اور افرادی قوت کو غلبہ حق کےلئے تیار کرنا
تحریک خلافت اسلامیہ پاکستان غیر سیاسی اور مکمل غیر فرقہ وارانہ پلیٹ فارم
ہے ۔ خالص اسلامی دینی اور علمی ترجمانی اس کا طرہ امتیاز ہے ۔ افراد ملت
اسلامیہ میں اسلامی ،دینی ،روحانی ، انقلابی اور فکری شعور کو بیدار کر کے
منزل مراد کی طرف پہنچنے میں مدد مہیا کرنا تحریک کا بنیادی مقصود ہے تاکہ
باطل نظام کو مسترد کر کے حاکمیت حقہ کے عملی طور پر تسلیم کرکے شرف آدمیت
کے تحفظ کو قانون قدرت کے نفاذ کے ذریعے یقینی بنایا جاسکے ۔ فتح مکہ کی وہ
مثال کہ جس نے دنیائے انقلاب کےلئے ایک فکر انگیز مستقل نصاب رکھا کہ
انسانیت کی خیر خواہی ، اصلاح اور تربیت کے مقاصد سے بھر پور اقدامات کا
انداز و طریق وہی ہوگا کہ جس میں مظلوم کا سہارا بنا جائے ۔ غلامی کی
زنجیروں کو توڑا جائے حریت آدمیت کی بنیادوں کو اصول فطرت پر استوار کیا
جائے ۔ انسانی معاشروں کی اصلاح و تربیت کو نور علم سے آراستہ کر دیا جائے
۔ زندگی کا حق آئین کی بالادستی کی یقینی ضمانت کے ساتھ ہر ایک کو دیا جائے
۔ زیور علم سے بلا تمیز رنگ و نسل ہر ایک کو ہمکنار کیا جائے ۔فرد انسانیت
کے حق ملکیت کو تحفظ دیا جائے ۔ کرامت آدمیت کے پیکر کی حریت برقرار رہے
۔جنگوں کے ذریعے انسانوں کو نہیں ۔ آپ کا لباس اس سے کیونکر بن پایا ۔ اس
سوال کا جواب دیا جائے اور پھر خطبہ دیں ۔ آپ ؓ نے اپنے بیٹے عبداﷲ ابن عمر
ؓ کو حکم دیا کہ وہ لباس کے معاملہ میں اظہار حقیقت کریں آپ نے بتایا کہ جو
چادر ان کے حصے میں آئی تھی وہ انہوں نے اپنے والد بزرگوار کو پیش کردی جس
کی وجہ سے لباس کا مکمل بننا ممکن ہوا۔ اسلام کا نظام احتساب اور آئینی
بالا دستی قائم کرنے کا نظریہ ایسی ہی حقیقتوں پر ہوتی ہے ۔ اسلامی طرز
ریاست میں ریاست کے ہر فرد کو ریاستی ذمہ داری رکھنے والے افراد کے محاسبہ
کا ہمہ وقت پورا پورا حق حاصل ہے ۔ شریعت مطہرہ میں ایمان و احتساب پر بڑا
زور دیا گیا ۔ محاسبہ نفس سے لے کر حکام ریاست کے محاسبہ تک کی تمام منازل
آئین کی بالادستی اور حق کے ساتھ تعلق کی مضبوطی کی ضمانت ہیں ۔ ذہن و
کردار کی تعمیر اور آئین سے آگاہی کی بدولت ہی انسان آئین کی صحیح اور مکمل
پاسداری کے قابل ہو سکتا ہے اور ایسی صلاحیت رکھنے والے افراد و معاشرہ
جاندار اور نتیجہ خیز احتساب کی صلاحیت کے اہل ہیں ۔ |